Home خاص کالم اس رازکوعورت کی بصیرت ہی کرے فاش !

اس رازکوعورت کی بصیرت ہی کرے فاش !

by قندیل

 
نـــایــــاب حـــسن
عورت تخلیقِ خداوندی کا شاہ کاراوراس کی عظیم صفتِ خلاقیت کامحسوس پیکرومظہرھے، عورت عالمِ اسباب میں کائنات کے وجودکی وجہ اوراس کے ہونے کاسبب ہے، عورت کی ہستی بادی النظرمیں بڑی پیچیدہ،بہت گہری اورپرت درپرت ھے، عورت صبروشکیبائی کی ہمالیائی قوت وطاقت رکھتی ہے، اس کے اندرمحبت، ملایمت اوردل نشینی کی ایک دل کش کائنات بستی ھے، عورت خوش ہونے کے ایک ہزارایک بہانے تلاش سکتی ہے اوراس کے پاس غم واندوہ کے بھی اتنے ہی اسباب ہر وقت ہم دست ہوتے ہیں، عورت حسنِ فطرت کامظہرِ جمیل ہے، عورت ربِ دوجہان کی بے شمارحکمتوں کامخزن وماویٰ ہے، عورت ماں ہے، عورت بیٹی ہے، عورت بہن ہے، عورت بیوی ہے، عورت ایک عام انسان ہے اوراس کی سب سے ممتازترین صفت یہ ہے کہ عورت کے قدموں تلے جنت بستی ہےـ
عورت ایک مکمل انسان ہے اوراس کے حقوق وفرائض بھی انسانوں جیسے ہی ہیں؛ اس لیے فی الحقیقت سال کے ایک متعین دن میں "یومِ خواتین "کی تخصیص کی کوئی معقول اورمنطقی وجہ سمجھ میں نہیں آتی، یوں بھی عالمی ادارے اقوامِ متحدہ نے پہلے سے ” حقوقِ انسانی "کاایک دن متعین کررکھاہے، توپھرایسے میں عورتوں کے لیے ایک خاص دن متعین کرنے کاکیامطلب ہوسکتاہے؟ یہی نہیں،سال کے مختلف ماہ وایام میں مزدوروں، محنت کشوں، کمزوروں، بچوں، والدین، دوست، محبوب وغیرہ کے لیے علیحدہ علیحدہ دن مختص ہیں، جنہیں ان کے متعلقہ ناموں سے یادکیاجاتاہے ـ دانش وران کہتے ہیں کہ ان مخصوص ایام کوسلیبریٹ کرنے کامقصودیہ ہے کہ ان دنوں میں متعلقہ افرادکے تئیں سماج کی ذمے داری کواجاگرکیاجائے، لوگوں کے شعورکوبیدارکیاجائے اورانھیں اُن لوگوں کے حوالے سے حساس بنایاجائے، یومِ خواتین بنیادی طورپر1914سے باقاعدہ منایاجارہاہے،پس منظراس کایہ ھے کہ اس سے کچھ سالوں پہلے امریکہ کی ایک گارمینٹ مل میں کام کرنے والی عورتوں نے اپنے کام کے لمبے دورانیے پراحتجاج کیاتھااوراس میں تخفیف کامطالبہ کیاتھا، پھراحتجاج کادائرہ بڑھا، مطالبات کے نکات میں اضافہ ھوا، کئی ملکوں میں اس کی بازگشت سنائی دی اورنتیجتا دنیاے مغرب میں فیمنزم یاتانیثیت کی ایک فکری، نظریاتی اورادبی تحریک وجودپذیرہوگئی، سیانے کہتے ہیں کہ اس کابنیادی مقصد سماج، ملازمت، معاشرت، تعلیم اوردیگرسرگرمی ہاےحیات میں خواتین کے لیے مساوات وبرابری کاحصول ہے اورانہی مقاصدکی بازیابی ودستیابی کے لیے ہرسال ایک خاص دن عورتوں سے منسوب کیاگیاہے،مگریہ عجیب ٹریجڈی ہے کہ گزشتہ سوسال سے بھی زائدعرصے سے یہ دن منایاجارہاہے اورفیمنزم کی تحریک تحریروادب وشعراورزبان وبیان کی سطح پر کہیں سے کہیں پہنچ چکی ہے، مگرہنوز کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتاکہ فلاں ملک میں عورتوں کوان کے مکمل حقوق مل گئے ـ ایسے میں ذہن میں ایک سوال کلبلاتاہے کہ پھراس تحریک کے بارے میں کیاکہاجائے؟ کیایہ تحریک بودی ہے یااس کی اُٹھان صحیح بنیادوں پرنہیں ہوئی ہے؟ کیااس تحریک کے پسِ پشت کچھ خاص مقاصدکارفرماہیں اوراگرہیں تووہ کیاہیں؟
جن ملکوں کے بارے میں یہ تصورہے کہ وہاں خواتین کوان کے حقوق دیے جارہے ہیں اوروہ مردوں کے شانہ بشانہ ترقی کے مدارج طے کررہی ہیں، وہاں کی حقیقت حددرجہ متضادہے، عورت کی آزادی کادائرہ اس کے معصوم جسم کی زیادہ سے زیادہ نمایش کے گردجولاں ہے، اسے تہی آغوش کردیا گیاہے، سیاست وصنعت وفنونِ لطیفہ سے لے کرادب وتعلیم تک کے تمام شعبوں میں جنسِ مخالف کے لیے لذت آفرینی،یہی گویاعورت کی آزادی ہے،جس کمپنی اورفرم میں ایک مردشاندار اورمکمل ڈھکے چھپے کوٹ پینٹ میں آتاھے، اسی کمپنی میں ایک عورت ورکرزیادہ سے زیادہ مختصرلباس میں آنے کی پابندکی جاتی ہے، اکثرجگہوں پرایساہی قانون ہوتاہے، جبکہ بعض مقامات پربے چاری خود فریبی کی شکار عورت اسی اندازواطوار کواپناحق سمجھنے لگتی ہے ـ
عورت کے حقوق کامسئلہ ایک گہری مرداَ ساس سازش کے تحت دنیاکے پیچیدہ ترین مسئلوں میں مدغم کردیاگیاہے، جولوگ جلوتوں میں حقوقِ نسواں، آزادیِ نسواں اورعورتوں کوبااختیاربنانے کے لیے گلے پھاڑپھاڑکرتقریریں کرتے،اس موضوع پر اپنی علمی نکتہ وری کارعب جماتے، دنیابھرمیں خواتین کوبااختیاربنانے کی تلقین وتبلیغ کرتے ہیں، وہی لوگ خلوت میں اوراپنی ذاتی عملی دنیامیں حددرجہ بدکردار، حق تلفی کرنے والے اورمعصومیتِ نسواں کااستحصال کرنے والے ہوتے ہیں، ان کی زبانیں کچھ کہتیں،قلم کچھ لکھتاہے، جبکہ ان کاشاطرانہ دماغ کچھ الگ دامِ ہم رنگِ زمیں بچھانے میں مصروف رہتاہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت معصوم ہے اوراس کی معصومیت کوچندچمک دارنعروں کی آڑمیں تارتارکیاجارہاہے، مگردوسری طرف مسئلہ یہ بھی ہے کہ آخرصورتِ حال کی حقیقت کوکون افشاکرے اورکون اس بھولی صنف کواس کاقائل کرے کہ تمھارے ساتھ انصاف کی آڑ میں جبرِ مسلسل ہورہاہے، کون اسے یہ باورکرائے کہ حقوق اورآزادی کی بات کرنے والے دراصل اس کی معصومیت، اس کی نازکی، اس کی لطافت، اس کے حسن اوراس کی عفت مآبی کے سوداگرہیں،موجودہ ماحول میں شایدکوئی نہیں!!
میرے خیال میں مشرق کے عظیم فلسفی اقبال کوبھی یہی احساس تھا؛ اسی لیے انہوں نے یہ کہہ کراپنے آپ کواِس تحریک سے الگ کرلیا کہ:
میں بھی مظلومیِ نسواں سے ہوں غمناک بہت
مگرممکن نہیں اس عُقدۂ مشکل کــــی کشود
مذہبی اعتبارسے اســـلام کودنیاکاواحدایسامذہب سمجھاجاناچاہیے، جس نے اپنی آمدکے بعدسے ہی عورتوں کے حوالے سے انسانوں کی عام سائیکی اورشعورکوبدلا، ان کی فکروں کادھاراموڑااوراُس وقت موجودمذاہبِ عالم کے برعکس عورت کے تئیں اُس نے ایک ایساواضح، شفـــاف اورروشن تصورپیش کیاکہ عورت ذات اوج پرپہنچ گئی،مگـــراِس وقت کاجوعالم ہے، وہ یہ ہے کہ خود اس مذہب کے ماننے والوں کی زندگیوں سے خواتین کے حوالے سے وہ عظیم ربانی، نبوی تصورمحوہوچکاہے،وہ خودفاعلیت کی بجاے انفعالی کیفیت سے دوچارہیں اورہواکے دوش پرچلے جارہے ہیں، توپھروہ کسی اورمذھب یاتہذیب کے علم برداروں کو کیسے یقین دلاسکتے ہیں کہ اُن کے مذہب نے عورتوں کوجوحقوق دیے ہیں، وہ سراسرفطرتِ انسانی کے مطابق ہیں اورانصاف کے تقاضوں پرسوفیصداترتے ہیں؟!

You may also like

Leave a Comment