تازہ بہ تازہ، سلسلہ 14
فضیل احمد ناصری
دل غم سے لہو ہے، کوئی آرام نہیں ہے
روتا ہوں کہ رونے کے سوا کام نہیں ہے
کس روز یہاں خون کے دریا نہیں بہتے
کس روز یہاں گردشِ ایام نہیں ہے
ہے کون جو تہذیبِ فرنگی سے جدا ہے
کس ہاتھ میں اب بادۂ گلفام نہیں ہے
غوطےپہ قیامت ہے،صحافت ہےکہ چپ ہے
ہے شام، مگر تذکرۂ شام نہیں ہے
ہر چیز کی قیمت ہے زمانے میں ولیکن
اسلام کے بیٹوں کا کوئی دام نہیں ہے
کفار ہمیں کیوں نہ ہدف اپنا بنائیں
ہاتھوں میں ہمارے کوئی صمصام نہیں ہے
ہرگز اسےعظمت کی نگاہوں سےنہ دیکھو
یورپ ہے، کوئی جامۂ احرام نہیں ہے
دل نورِ الہی سے منور ہو تو کیوں ہو
پیکانِ نبیؑ کی خلشِ تام نہیں ہے
مسجد ہے، کتابیں ہیں، ادارے ہیں، ندا ہے
سب کچھ ہے، مگر دامنِ اسلام نہیں ہے