مصنف : پروفیسر محسن عثمانی ندو
ناشر : نیوکر یسنٹ پبلشنگ کمپنی، دہلی
سنہ اشاعت : ۲۰۱۷
صفحات:۱۹۲، قیمت۔ ۱۵۰؍ روپے
مبصر : ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
موجودہ دور کے بعض دانش وروں کا خیال ہے کہ اسلام اور سیاست کے درمیان کوئی رشتہ نہیں، دونوں کی دنیا الگ ہے اور اسلامی ریاست نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ وہ اسلام اور سیاست کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں جس نظر سے اہل مغرب نے عیسائیت اور سیاست کو دیکھا تھا۔ دوسری طرف موجودہ دور میں مسلم ممالک میں قائم حکومتوں نے جو مطلق العنانیت، ظلم و جبر اور استبدادی نظام قائم کر رکھا ہے اس نے بھی اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور اس کی تصویر کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ اسلام کے سیاسی نظام پر مختلف زبانوں میں کچھ کتابیں پائی جاتی ہیں ، لیکن ان میں اس موضوع پر اٹھنے والے نئے مباحث و مسائل کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے پروفیسر محسن عثمانی ندوی کو کہ انھوں نے زیر نظر کتاب میں اس اہم اور نازک موضوع کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے اور بغیر کسی لاگ لپیٹ کے اسلامی موقف کی درست ترجمانی کی ہے اور موجودہ مسلم حکومتوں کو اس کی کسوٹی پر جانچنے کی جرأت کی ہے۔
ڈاکٹر عثمانی موجودہ دور میں بر صغیر کے ان علماء اور مفکرین میں سے ہیں جو اپنی علمی وجاہت اور تحقیقی شان کے ساتھ درد مند دل رکھتے ہیں۔ امت مسلمہ بین الاقوامی سطح پر ، عالم اسلام کی سطح پر یا ملکی سطح پر جن ناگفتہ بہ حالات سے گزر رہی ہے، ان پر وہ تڑپ اٹھتے ہیں اور ان کا جذب دروں قلم کے ذریعہ صفحۂ قرطاس پر بکھر جاتا ہے۔ وہ یہ دیکھ کر بہت اذیت محسوس کرتے ہیں کہ امت اتحاد و اتفاق کے ساتھ اپنے مسائل حل کرنے کے بجائے باہم دست و گریباں ہے۔ وہ اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ نہ مسلم حکم راں اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے انجام دے رہے ہیں اور نہ علماء کرام اور دانش وران عظام کو اپنے منصب کا صحیح شعور ہے۔ امت اور خاص کر اس کے سربر آوردہ طبقہ کو جھنجھوڑنے اور بیدار کرنے کے لیے ڈاکٹر عثمانی پوری طرح سرگرم عمل ہیں۔ چنانچہ کانفرنسوں، سمیناروں میں اپنے مقالات ، خصوصی پروگراموں میں خطبات اور رسائل وجرائد میں شائع ہونے والے مضامین کے ذریعے وہ یہ فریضہ بہ خوبی نبھا رہے ہیں۔۲۰۱۲ء میں انھوں نے انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز نئی دہلی میں ’دین اور سیاست کا رشتہ‘ کے موضوع پر ایک لکچر دیا تھا، بعد میں ۲۰۱۴ء میں انھیں دار المصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ میں ’جمہوریت اور اسلام‘ کے موضوع پر لکچر دینے کا موقع ملا۔ اس کے بعد بھی اس موضوع کے دیگر پہلوؤں پر ان کا مطالعہ اور تحقیق جاری رہی، جس نے اس کتاب کی شکل اختیار کر لی۔
یہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔باب اول کا عنوان ہے’دین اور سیاست کا رشتہ‘۔اس میں فاضل مصنف نے زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ اسلام دین اور دنیا کا جامع ہے۔ وہ زندگی کے تمام پہلوئوں میں انسانوں کی رہ نمائی کرتا اور ان کے جملہ مسائل کو حل کرتاہے۔ ان میں اجتماعی اور سیاسی معاملات بھی شامل ہیں۔ اس بحث کو انہوں نے آیاتِ قرآنی اور احادیث نبوی کے ساتھ قدیم و جدید علماء کی آراء و افکار سے بھی مدلل کیاہے۔ قدیم علماء میں ماوردیؒ، ابوعبیدؒ، قاضی ابویوسفؒ، علامہ ابن تیمیہؒ اور معاصر علماء میں شیخ حسن البناء شہید ؒ،علامہ سید سلیمان ندویؒ، مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ اور مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے حوالے دیے ہیں۔
دوسرا باب، جو بہت مبسوط(ص۳۹۔۱۲۲) ہے ،’اسلام کا سیاسی نظام کے عنوان سے ہے۔ اس میں فاضل مصنف نے اسلام کے مطلوبہ سیاسی نظام کے خدّو خال نمایاں کیے ہیں۔انہوں نے لکھا ہے کہ ’’انعقادِ خلافت کے لیے اسلامی طریقہ بیعت ہے۔ بیعت کا طریقہ اس وقت ختم ہوا جب حکم رانوں نے مغربی نظام سیاست کو اختیار کیا۔‘‘(ص۴۲۔۴۳)’’اسلام کا نظام حکومت جمہوریت کے قریب ضرور ہے، لیکن یہ وہ عین جمہوریت نہیں ہے جو یورپ میں رائج ہے، جس میں اقتدارِ اعلیٰ عوام کے حوالے کردیاجاتاہے کہ وہ جو چاہیں قانون بنائیں ، چاہے وہ مذہب سے متصادم ہو۔‘‘(ص۴۷۔۴۸)وہ فرماتے ہیں کہ اسلام کا سیاسی نظام شورائیت پر مبنی ہوگا۔ حکم راں کو من مانی کرنے کا اختیار نہ ہوگا۔بلکہ وہ اہل الرای کے مشوروں پر عمل کا پابند ہوگا۔ انہوں نے حکم راں کی مطلوبہ صفات پر تفصیل سے اظہار خیال کیاہے۔(ص۵۷۔۶۵)ان کے نزدیک حکم راں کا تقرر تا حیات بھی ہوسکتاہے اور اربابِ حل و عقد ایک متعین مدت کے لیے بھی اس کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ اس لیے کہ اسلام نے اس سلسلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیاہے‘‘۔ (ص۸۶۔۸۷)وہ فرماتے ہیں کہ اسلامی ریاست میں عوام کو حکم راں پر تنقید کا حق حاصل ہے۔ اس بنا پر حزب اختلاف کی گنجائش ہوگی، لیکن ضروری ہے کہ وہ اختلاف برائے اختلاف کے بجائے اصولی اختلاف کو اپنا شیوہ بنائے۔(۷۱) اسلامی جمہوریت میں کسی کی مذہبی دل آزاری ممنوع ہوگی اور اقلیتوں کے حقوق محفوظ رہیں گے۔ (ص۱۰۴۔۱۰۵)اس باب میں انہوں نے اسلام کے تصور جہاد پر بھی مختصراً اظہار خیال کیاہے۔ آخر میں لکھا ہے کہ خلافت علی منہاج النبوۃ کا قیام مطلوب ہے۔جب اس کا سقوط ہوا تو اسے از سر نو قائم کرنے کے لیے بارہا کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ حضرت حسین بن علیؓ اور عبد اللہ بن زبیرؓنے اس کی بحالی کے لیے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ نے اسی وجہ سے انقلاب کی کوششوں کی حمایت کی تھی۔
کتاب کا تیسرا باب موجودہ حالات سے پر ہے۔ اس کا عنوان ہے:’موجودہ عالم اسلام اور اسلام کا سیاسی نظام‘۔اس میں فاضل مصنف نے تفصیل سے یہ بحث کی ہے کہ اس وقت دنیا کے جتنے مسلم ممالک ہیں، کسی میں اسلام کا سیاسی نظام نافذ نہیں ہے۔ تمام ممالک میں موروثی بادشاہت اور استبدادی نظام جاری و ساری ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔ حقیقی اسلام کی تبلیغ و اشاعت کرنے والی جماعتوں، تحریکوں اور شخصیات کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے اور ان کی سرکوبی کی پوری کوشش کی گئی۔ مصنف نے ان درباری علماء پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے جنھوں نے ان ظالم حکومتوں کی تائید کی اور ان کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہروں اور احتجاجوں کے خلاف فتویٰ دیے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے تفصیل سے اس موضوع پر بحث کی ہے کہ ظالم حکم رانوں کے خلاف خروج جائز ہے۔ انھوں نے ظلم کے خلاف احتجاج کے جواز کے لیے قرآن و حدیث سے دلائل پیش کیے ہیں۔ صحابۂ کرام و تابعین عظام کے عہد کے واقعات سے استدلال کیا ہے اور علماء و ائمہ کے اقوال سے بھی استفادہ کیا ہے۔ وہ علماء کرام کا فریضہ مذہبی قرار دیتے ہیں کہ وہ حکم رانوں کا احتساب کریں، ان کے انحراف پر ان کی گرفت کریں اور اسلام کی صحیح تعلیمات کو نافذ کرنے کی کوشش کریں۔
زیر نظر کتاب جہاں اسلام کے سیاسی نظام کا عمدہ تعارف کراتی ہے وہیں موجودہ مسلم حکومتوں کو اس کسوٹی پر پرکھ کر ان کا کھوٹ بھی ظاہر کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پروفیسر محسن عثمانی کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انھوں نے ایک ایسا آئینہ رکھ دیا ہے جس میں مسلم حکم راں اپنی تصویر دیکھ سکتے ہیں اور اپنی اصلاح کی تدابیر اختیار کر سکتے ہیں۔