مولاناعبدالرشید طلحہ نعمانیؔ
اسلام کی آمد سے قبل دنیائے انسانیت بے راہ روی ،کس مپرسی اورمفلوک الحالی کے خوف ناک اوربدترین دور سے گزرہی تھی ،اسلام کی دل گیر صداؤں نے اسے ایک روح پرور، حیات بخش اور امن آفریں منزل عطاکی۔ بعثت رسول ﷺسے قبل عالم انسانیت،مذہب بیزاری، جنسی انارکی، سیاسی پستی، علمی و فکری تنزلی، طبقاتی کشمکش اور معاشرتی لاقانونیت کے آخری نقطے پر پہنچ چکی تھی،اسلام کے جاں فزازمزموں نے پورے عالم کو اس مہیب صورتِ حال سے نکال کر سرخ روئی اور سرفرازی سے ہم کنار کیا۔
دیگر اقوام کی تہذیب و تمدن ،ثقافت و حضارت اوردھرم و مذہب کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے تو یہ بات آشکارا ہوجاتی ہے کہ فطرت سے ہم آہنگی، آفاقیت اور جامعیت ایسے کمالات اور امتیازات ہیں ؛جو تمام ادیان کے مقابلے میں صرف اور صرف مذہب اسلام کا حصہ ہیں ۔ان ہی انسانی اور فطری حقوق میں ’’تعدد ازدواج کا مسئلہ ‘‘ بھی ہے ،جواہمیت کا حامل ہے اوربالخصوص عصر حاضر کے نئے اذہان میں پنپنے والے شکوک وشبہات اور قوانین اسلام کو لے کر ہونے والے اعتراضات کی وجہ سے اس کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے ۔
تعدد ازدواج دیگر مذاہب میں :
تعددِ ازواج کے مبنی برفطرت ہونے کا انکا رفقط دورِ حاضرکا ایک فتنہ ہے ، ورنہ خاتم النّبیین ﷺکی بعثت سے ہزاروں سال قبل بھی اللہ کی طرف سے آدم ؑ کے بیٹوں کو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت تھی۔ مختلف جلیل القدر پیغمبروں اور اُمم سابقہ کے حالات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی اُمتوں اور سابقہ شرائع میں تعددِ ازواج کی باقاعدہ اجازت تھی اور اس پر عمل بھی تھا۔اگر آپ یہودی قانون کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہودیت میں گیارہویں صدی عیسوی تک مرد کو کثرت ازدواج کی اجازت حاصل رہی ہے ۔ عرب علاقوں میں آباد یہودی 1950ء تک ایک سے زیادہ شادیاں کرتے رہے؛ لیکن 1950ء میں اسرائیل کے علما نے کثرتِ ازدواج پرمکمل پابندی لگا دی۔اسی طرح عیسائی انجیل بھی کثرت ازدواج کی اجازت دیتی نظرآتی ہے ۔ یہ تو چند صدی پہلے عیسائی علما نے ایک سے زاید شادیوں پر پابندی عائدکی ہے ۔
بعثت رسول ﷺسے قبل جاہلیت کے زمانے میں عربوں کا کیا حال تھا ؟
بخاری شریف کی روایت کے مطابق ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جاہلیت کے دورمیں عام طور پر بہت سی عورتیں متعدد مردوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کر لیتی تھیں؛ لیکن بچہ پیدا ہونے کی صورت میں وہ عورت ایسے مردوں کا تعین کرکے انہیں طلب کرتی تھی اور سب کی موجود گی میں ان میں سے کسی ایک کو مخاطب کرکے کہتی تھی کہ یہ بچہ تمہارا ہے ۔کسی شخص کو اس فیصلے سے انکار کی جرات نہیں ہوتی تھی اور اسے بچے کی ذمہ داری قبول کرنا پڑتی تھی، جبکہ اس سے زیادہ اشتباہ کی صورت میں قیافہ شناس کو بلایا جاتاتھا ،جو عورت کی طرف سے جنسی تعلق کے حوالے سے نامزد کیے جانے والے مردوں میں سے قیافہ کی بنیاد پر کسی ایک کا تعین کردیتاتھا اور اس مرد کو بچے کے باپ کے طورپر ذمہ داری قبول کرنا پڑتی تھی۔
مگر اسلام نے اس بے راہ روی پر قدغن لگائی اور چند شرائط کے ساتھ ۴/تک تعدد کی اجازت دی ؛چنانچہ قرآن ہی دنیا کی وہ واحد الہامی کتا ب ہے، جو بہ صورت دیگر صراحت کے ساتھ ایک ہی شادی کاحکم دیتی ہے اور کوئی ایسی مقدس کتاب موجود نہیں ہے، جو ایک شادی کا حکم دیتی ہو۔آپ پوری "گیتا” پڑھ جائیں، پوری”راماین” پڑھ لیں، پوری "مہا بھارت” پڑھ لیں۔ کہیں آپ کو یہ لکھا نہیں ملے گا کہ ایک شادی کرو حتی کہ بائبل میں بھی آپ ایک شادی کا حکم تلاش بسیار کے باوجود نہیں پائیں گے ؛بلکہ اگر آپ ہندوؤں کے متون مقدسہ کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ بیشتر راجوں، مہاراجوں کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں۔ "دشرتھ” کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں،شری کرشن کی بھی بہت سی بیویاں تھیں۔
اسی طرح اگر آپ ہندوستانی قانون کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ پہلی دفعہ 1954ء میں کثرت ازدواج پر پابندی لگائی گئی۔ اس سے قبل ہندوستان میں قانونی طور پر بھی مرد کو ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی اجازت تھی۔1954ء میں ہندو میرج ایکٹ کا نفاذ ہوا ،جس میں ہندوؤں کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔اگر آپ اعداد و شمار کا تجزیہ کریں توموجودہ صورتِ حال آپ کے سامنے واضح ہو جائے گی۔ یہ اعداد و شمار "اسلام میں عورت کا مقام” کے عنوان سے تحقیق کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ میں شامل ہیں۔ 1975ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کے صفحہ 66 اور 67 پر ایک سے زاید شادیوں کے حوالے سے اعداد و شمار دیے گئے ہیں ؛جن میں بتایا گیا ہے کہ ہندوؤں میں ایک سے زاید شادیوں کی شرح 5.56 فی صد تھی جبکہ مسلمانوں میں یہ شرح 4.31 فی صد۔
تعدد نکاح کاثبوت اور شرائط :
اللہ تبارک وتعالی نے اپنی کتاب عزیز قرآن مجید میں فرمایا ہے :
اوراگرتمہیں یہ خدشہ ہوکہ تم یتیم لڑکیوں سے نکاح کرکے انصاف نہیں کرسکوں گے تو اورعورتوں میں سے جوبھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو ، دو دو ، تین تین ، چار چارسے ، لیکن اگر تمہیں برابری اورعدل نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی ، یہ زیادہ قریب ہے کہ تم ایک طرف جھک پڑنے سے بچ جاؤ ! (النساء: 3 )۔
تعدد کے جواز میں یہ نص بالکل صریح ہے؛اس لیے شریعت اسلامیہ میں یہ جائز ہے کہ ایک مردایک عورت یا پھر دو یا تین یا چار عورتوں سے بیک وقت شادی کرلے ، یعنی ایک ہی وقت میں اس کے پاس ایک سے زیادہ بیویاں رہ سکتی ہیں ؛لیکن وہ ایک ہی وقت میں چار بیویوں سے زیادہ نہیں رکھ سکتا اورنہ ہی اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے ، مفسرین کرام ، فقہاے عظام اورسب مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کسی نے بھی اس میں کوئی اختلاف نہیں کیا ۔اوریہ بھی علم میں ہونا چاہیے کہ تعدد زوجات کے لیے کچھ شروط بھی ہیں مثلاً :
عدل ومساوات :
اس کی دلیل اللہ سبحانہ وتعالی کا یہ فرمان ہے :’’تواگرتمہیں یہ خدشہ ہوکہ تم ان کے درمیان برابر اورعدل نہیں کرسکتے توپھر ایک ہی کافی ہے‘‘۔ ( النساء:۳) تواس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تعدد زوجات کے لیے عدل شرط ہے ، اوراگرآدمی کویہ خدشہ ہو کہ وہ ایک سے زیادہ شادی کرنے کی صورت میں عدل وانصاف نہیں کرسکے گا توپھر اس کے لیے ایک سے زیادہ شادی کرنا منع ہے؛بل کہ اس پر سخت وعیدواردہوئی ہے ۔نیزتعدد کے جواز کے لیے جوعدل اوربرابری مقصود اورمطلوب ہے وہ یہ ہے کہ اسے اپنی بیویوں کے مابین نفقہ ، لباس ، اوررات بسر کرنے وغیرہ اورمادی امور جن پر اس کی قدرت اوراستطاعت ہے میں عدل کرنا مراد ہے ۔
بیویوں پرنفقہ کی قدرت:
اس شرط کی دلیل یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب عزیز میں کچھ اس طرح فرمایا ہے: ’’اوران لوگوں کوپاکدامن رہنا چاہیے جواپنا نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتے حتی کہ اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی کردے ‘‘۔(النور:۳۳)
اللہ سبحانہ وتعالی نے اس آیت کریمہ میں یہ حکم دیا ہے کہ جوبھی نکاح کرنے کی استطاعت اورطاقت رکھتا ہواور اسے کسی قسم کا مانع نہ ہوتووہ پاکبازی اختیار کرے ، اورنکاح سے مانع اشیا میں یہ چیزیں داخل ہیں :’’جس کے پاس نکاح کرنے کے لیے مہر کی رقم نہ ہو ، اورنہ ہی اس کے پاس اتنی قدرت ہو کہ وہ شادی کے بعد اپنی بیوی کا خرچہ برداشت کرسکے ‘‘۔
وظیفۂ زوجیت اداکرنے کی طاقت :
اس کی دلیل حضرت عبداللہ بن مسعودسے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 148اے نوجوانو! تم میں سے جو نکاح کی (جسمانی اور مالی)وظائف کو اداکرنے کی طاقت رکھتا ہے اسے نکاح کرلینا چاہئے؛ کیونکہ نکاح نگاہ کو نیچا رکھتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے (یعنی نظرکو بہکنے سے اور جذبات کو بے لگام ہونے سے بچاتا ہے )اور جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا ہے اسے چاہئے کہ شہوت کا زور توڑنے کے لیے وقتاً فوقتاً روزے رکھے‘‘ ۔
تعددِ نکاح کی اباحت میں حکمت :
1:تعدد اس لیے مباح کیا گیا ہے کہ امت مسلمہ کی کثرت ہوسکے، سرکار دوعالمﷺ کا ارشاد ہے:’’نکاح کرو، میں تمہاری کثرت کے ذریعہ قیامت کے دن اور امتوں پر فخر کروں گا‘‘ اوریہ تومعلوم ہی ہے کہ کثرت نکاح کے بغیر نہیں ہوسکتی اورایک بیوی کی بنسبت اگر زیادہ بیویاں ہوں تو پھر کثرت نسل میں بھی زیادتی ہوگی اور عقلمندوں کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ افراد کی کثرت جماعت کے لیے تقویت کا باعث ہوتی ہے اورپھر افرادی قوت کی زیادتی سے کام کرنے کی رفتار بھی بڑھے گی جس کے سبب سے اقتصادیات بھی مضبوط ہوں گی۔
2: متعددسروے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے ، تواس طرح اگر ہر مرد صرف ایک عورت سے ہی شادی کرے تواس کا معنی یہ ہوا کہ کتنی ہی عورتیں شادی کے بغیر باقی رہ جائیں گی جوکہ معاشرے اوربذات خود عورت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا ۔عورت ذات کوجو نقصان پہنچے گا وہ یہ کہ اس کے پاس ایسا خاوند نہیں ہوگا جواس کی ضروریات پوری کرے اوراس کے معاش اوررہائش وغیرہ کا بندوبست کرے اورحرام قسم کی شھوات سے اسے روکے رکھے ، اوراس سے ایسی اولاد پید کرے جوکہ اس کی آنکھوں کے لیے ٹھنڈک ہو ، جس کے نہ ہونے پر وہ غلط راستہ اختیارکرے گی اورضائع ہوجائے گی۔ اورجوکچھ معاشرے کونقصان اورضرر ہوگا وہ یہ کہ خاوند کے بغیر بیٹھی رہنے والی عورت زنا اورفحش کام میں پڑ جائے گی ،معاشرے کیلیے بدنماداغ بنے گی؛جس کی بناء پر ایڈزاور اس جیسے متعدی امراض پھیلیں گے جن کا کوئی علاج نہیں ، پھر خاندان کے خاندان تباہ ہوں گے اورولد الزنی کی کثرت ہوجائے گی ،جن کویہ علم ہی نہیں ہوگا کہ ان کا باپ کون ہے ؟اس طرح انہیں نہ توکوئی مہربانی اورنرمی کرنے والا ہاتھ ہی میسر ہوگا ، اور نہ ہی کوئی ایسی عقل ملے گی جوان کی حسن تربیت کرسکے ، اورجب وہ اپنی زندگی کا آغاز کریں گے اوراپنی حقیقت حال کا انہیں علم ہوگا کہ وہ زنا سے پیدا شدہ ہیں توان کے سلوک پر برا اثر پڑے گا پھروہ منحراف اورضائع ہونا شروع ہوجائیں گے ؛بلکہ اپنے معاشرے پر وبال بن جائیں گے اوراسے سزا دیں گے ۔
3: مرد حضرات ہر وقت خطرات سے کھیلتے رہتے ہیں جوکہ ہوسکتا ہے ان کی زندگی ہی ختم کردے ، اس لیے کہ وہ بہت زیادہ محنت ومشقت کے کام کرتے ہیں ، کہیں تووہ لشکر میں فوجی ہیں اور کہیں مسلسل اسفار وغیرہ میں مصروف۔اس لحاظ سے مردوں میں وفات کا احتمال عورتوں کے بالمقابل زیادہ ہے ، جوکہ عورتوں میں بلاشادی رہنے کی شرح زیادہ کرنے کا باعث ہے ، اوراس کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ ہے تعدد کہ ایک سے زیادہ شادیاں کی جائیں ۔
4: مردوں میں کچھ ایسے مرد بھی پائے جاتے ہیں جن کی شھوت(گرم مقامات میں رہنے یا گرم غذااستعمال کرنے کی بناء پر) قوی ہوتی ہے اورانہیں ایک عورت کافی نہیں رہتی ، تواگر ایک سے زیادہ شادی کرنے کا دروازہ بند کردیا جائے اوراس سے یہ کہا جائے کہ آپ کو صرف ایک بیوی کی ہی اجازت ہے تووہ بہت ہی زیادہ مشقت میں پڑ جائے گا ، اورہوسکتا ہے کہ وہ اپنی شھوت کسی حرام طریقے سے پوری کرنے لگے ۔آپ اس میں یہ بھی اضافہ کرتے چلیں کہ عورت کوہرماہ حیض بھی آتا ہے اور جب ولادت ہوتی ہے توپھر چالیس روز تک وہ نفاس کی حالت میں رہتی ہے جس کی بنا پر مرد اپنی بیوی سے ہم بستری نہیں کرسکتا ، کیونکہ شریعت اسلامیہ میں حیض اور نفاس کی حالت میں ہم بستری یعنی جماع کرنا حرام ہے ، اورپھر اس کا طبی طور پر بھی نقصان ثابت ہوچکا ہے ، تو اس لیے جب عدل کرنے کی قدرت ہوتو تعدد مباح کردیا گیا ۔
5: ہوسکتا ہے ایک بیوی بانجھ ہو یا پھر خاوند کی ضرورت پوری نہ کرسکے ، یا اس کی بیماری کی وجہ سے خاوند اس سے مباشرت نہ کرسکے ، اورخاوند کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرتا رہے جوکہ مشروع ہو اور وہ اپنی ازواجی زندگی میں اپنی خواہش پوری کرنا چاہے جوکہ اس کے لیے مباح ہے تواس کے لیے اس کے پاس اورکوئی چارہ نہیں کہ وہ دوسرے شادی کرے تواس لیے عدل و انصاف اوربیوی کے بھلائی یہی ہے کہ وہ بیوی بن کر ہی رہے اوراپنے خاوند کودوسری شادی کرنے کی اجازت دے دے ۔
بعض منصف مزاج غیر مسلم دانشوروں نے بھی تعددازدواج کی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے ، علم تمدن کے معروف عالم ڈاکٹر گستا ؤلی بان لکھتے ہیں : ’’مغرب میں بھی 133 ایک ہی شادی کی رسم کا وجود صرف کتابوں ہی میں ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ کوئی شخص انکار نہ کرے گا کہ یہ رسم ہماری واقعی معاشرت میں نہیں پائی جاتی ہے ، میں نہیں جانتا کہ مشرقیوں کا جائز تعدد کسی امر میں مغربیوں کی ناجائز تعدد ازدواج سے کمتر سمجھا جاتا ہے ؟ بلکہ میں یہ کہوں گا کہ اول کو ہر طرح دوسرے پر ترجیح ہے‘‘ ۔ ( تمدن عرب )
جناب مالک رام ملک کے حقیقت پسند اصحابِ دانش میں تھے ، ان کا یہ اقتباس پڑھنے کے لائق ہے :’’ تعددِ ازدواج کی تائید میں متعددد لائل پیش کئے جاسکتے ہیں ، مثلاً یہ کہ عام حالت میں دنیا میں عورتوں کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہے ، اگر ایک مرد ، ایک عورت کے اُصول پر عمل کیا جائے تو ان زائد عورتوں کا کیا بنے گا ؟ کیا ہم ان پر نکاح کا راستہ بند کر کے ان کی اور ان کے ساتھ شادی شدہ مردوں کی بھی گمراہی کا سامان تو پیدا نہیں کر رہے ہیں 133 اگر آپ ان عورتوں کو نکاح کرنے کا موقع نہیں دیتے تو گویا انھیں قعر مذلت میں ڈھکیل رہے ہیں اور انھیں مجبور کر رہے ہیں کہ وہ گناہ کی زندگی بسر کریں ؛ کیوں کہ یہ جذبہ فطری ہے ، اگر عورت سماج کی اجازت سے اس کی تسکین نہیں کرسکے گی ،تو گھونگھٹ کی اوٹ میں شکار کھیلے گی اس صورت میں آپ کو کسی اور حرام اولاد کا وجود قانوناً تسلیم کرنا پڑے گا، حقِ انتخاب آپ کو حاصل ہے ، ایک طرف آپ اس عورت کو قابلِ عزت بیوی اور گھر کی مالکہ اور محترم ماں بنانے پر قادر ہیں ، دوسری صورت میں وہ قابل نفرت داشتہ یا کسی خانماں برباد اور اپنے اور تمام سماج کے لیے کلنک کا ٹیکابننے پر مجبور ہے‘‘ ۔ (اسلامیات بہ حوالہ تعددازدواج کا مسئلہ)
اسلام میں تعدد ازدواج کا قانون! ایک تقابلی جائزہ
previous post