Home اسلامیات اسلام اورمساواتِ مردوزن

اسلام اورمساواتِ مردوزن

by قندیل

اسلام اورمساواتِ مردوزن
ابواللیث قاسمی
کروڑی مل کالج(دہلی یونیورسٹی)
انسانی معاشرے کے سب سے مقدم اورسب سے زیادہ اہم دومسئلے ہیں جن کے صحیح اورمتوازن حل پرانسان کی فلاح وترقی منحصرہے اورانہی کوحل کرنے میں زمانۂ قدیم سے لے کرآج تک دنیا کے بڑے بڑے حکماومفکرین پریشان حال سرگرداں ہیں لیکن اب تک ان کا صحیح حل نہیں نکالاجاسکاہے ،پہلامسئلہ یہ ہے کہ مردوعورت اپنی اجتماعی زندگی میں تعلق کس طرح قائم کریں کیوں کہ یہی تعلق دراصل تمدن کاسنگم ہے اوراس کاحال یہ ہے کہ ذراسی کجی آئے تو ع تاثریامی روددیوارکج۔
اوردوسرامسئلہ فرداورجماعت کاہے جس کاتناسب قائم کرنے میں اگرذراسی بے راہ روی بھی باقی رہ جائے توصدیوں تلک عالم انسانیت کواس کے تلخ نتائج بھگتنے پڑتے ہیں،ایک جانب یہ دونوں مسائل اس قدراہمیت کے حامل ہیں تودوسری طرف ان کی پیچیدگی اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ جب تک ایک انسان کے تمام فطرت وحقائق پرپوری طرح واقفیت نہ ہوان کوحل نہیں کیاجاسکتاہے کسی نے سچ کہاتھاکہ انسان ایک عالم اصغرہے اس کے جسم کی ساخت اس کی قوتیں اورقابلیتں،نفس کی ترکیب اورخواہشات وضروریات کی پوری ایک کائنات اپنے اندرسمیٹے ہوئے ہے ،یہی وجہ ہے کہ انسان کوپوری طرح سے نہیں سمجھاجاسکتاجب تک کہ اس کی دنیاکاایک ایک گوشہ نگاہ کے سامنے نہ آجائے اورانسانی زندگی کے بنیادی مسائل کاحل نہیں نکل سکتاجب تک خودانسان کوپوری طرح پرکھ نہ لیاجائے ۔
انہیں پیچیدگیوں کی وجہ سے یہ دنیاعقل وحکمت کامقابلہ ابتداء ہی سے کررہی ہے اورآج تک جاری ہے ،اول تویہ ہے کہ اس دنیاکے تمام ترحقائق انسان کے سامنے نہیںآئے ہیں،انسانی علوم میں سے کوئی بھی ایساعالم لوگوں کے سامنے نہیںآیاجواپنے کمال کے آخری مرتبہ تک پہنچ چکاہویعنی جس کے متعلق کوئی بھی دعویٰ نہیں کرسکتاکہ اس علم کی جو بھی حقیقتیں اس فن سے تعلق رکھتی ہیں ان سب کااس نے احاطہ کرلیاہے ایک پہلوسامنے آتاہے تودوسراپہلوآنکھ سے اوجھل ہوجاتاہے ،کہیں نظرکوتاہی کرتی ہے توکہیں شخصی رجحانان صاحب نظرکے آڑے آجاتے ہیں،اس دوہری کمزوری کی وجہ سے انسان خوداپنی پریشانی کوحل کرنے کی جتنی بھی تدبیریں کرتاہے وہ ناکام اوربیکارہوتی ہیں،جب تک تمام حقائق نہ سہی کم ازکم کچھ پہلونگاہ کے سامنے نہ ہوں صحیح حل اس وقت تک ممکن نہیں،اورجہاںیہ سب چیزیں صاف نظرآتی ہوں ان کی جانب سے جب نظر پھرجائے وہاں عدل کیسے مل سکتاہے ؟ وہاں توجوبھی حل ہوگااس میں لامحالہ افراط پائی جائے گی یاتفریط۔
اورجن دومسائل کایہاں ذکرکیاگیاہے ان میں سے صرف پہلافی الوقت بحث ہے ہم تاریخ پرنظرڈالتے ہیں تواس حوالے سے ہمیں افراط وتفریط کی کھینچ تان کا ایک عجیب سلسلہ نظرآتاہے ایک جانب ہم دیکھتے ہیں کہ وہی عورت جوماں کی حیثیت سے آدمی کوجنم دیتی اوربیوی کی حیثیت سے زندگی کے ہرنشیب وافراز میں مردکی رفیق رہتی ہے ،تودوسری طرف ہمیںیہ نظرآتاہے کہ جب وہی عورت اٹھائی اورابھاری جارہی ہے توبداخلاقی اوربدنظمی کاطوفان بھی اٹھ رہاہے وہ حیوانی خواہشات کاکھلونابنائی جارہی ہیں اس کوواقعی شیطانی ایجنٹ بناکررکھ دیاہے اوراس کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ انسانی وقارگھٹتاجارہاہے ہمیںیہ بھی دکھتاہے کہ جب ایک قوم وحشت کے دورسے نکل کرتہذیب وتمدن کی طرف بڑھتی ہے توان کی عورتیں خدمت گاروں کی حیثیت سے مردوں کے ساتھ نظرآتی ہیں،مگرجب وہ نقصان کی تلافی شروع کرتی ہے توصرف تلافی پراکتفانہیں کرتی بلکہ آگے بڑھتی چلتی جاتی ہے یہاں تک کہ عورت کی آزادی سے خاندانی نظام (جومعاشرے کی بنیادہے )منہدم ہی ہوکررہ جاتاہے ،عورتوں اورمردوں کے اختلاط سے فحش کاری میں ابھارپیداہوتاہے عیش پرستی اورشہوانیت معاشرے کے اخلاق کوتباہ کرڈالتی ہے جس کاآخری انجام ہلاکت وبربادی کے سواکچھ نہیں ہوتا۔
اسی تہذیب کے علمبرداراسلام کے خلاف آوازاٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذہب اسلام نے عورتوں کوایک غلام بناکررکھ دیاہے اورقیدخانے میں بندکردیاہے ،وہ عورتوں کوآزادی نہیں دیتا،لباس سے لے کرہرمیدان میں ان کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیارکرتاہے جبکہ مذہب اسلام سے پہلے ان کاابتدائی اوربنیادی نظریہ تھاکہ عورت گناہ کی ماں اوربدی کی جڑاور جہنم کادروازہ ہے تمام انسانی پریشانیوں کااسی سے آغازہواہے ،اس کاعورت ہونا ہی شرمناک ہے،اسے اپنے حسن وجمال پرشرمندہ ہوناچاہئے ،ان کادوسرانظریہ تھاکہ عورت اورمردکاتعلق بجائے خودایک نجاست ہے خواہ وہ نکاح(شادی) کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو،جبکہ اسلام کانظریہ اس کے برعکس ہے ،ان دونوں نظریات نے نہ صرف اخلاق اورمعاشرت میں عورت کی حیثیت حدسے زیادہ گرادی بلکہ تمدنی قانون کوبھی اس درجہ متأثرکیاکہ ایک جانب ازدواجی زندگی بھی مردوعورت کے لیے مصیبت بن کررہ گئی ،مذہب اسلام ہی ایک ایسامذہب تھا جس نے ان قوانین کوتوڑااورسب سے پہلے عورتوں کے حقوق کے سلسلے میںآوازاٹھائی اورایک صنفِ نازک کوماں،بہن ،بیٹی کی صورت میں دنیاوالوں کے سامنے پیش کیا،
یہ نظریات جن پرمغربی ممالک کی بنیاد رکھی گۂیں تین عناوین کے ذیل میںآتے ہیں(۱)عورتوں اورمردوں کی مساوات (۲)عورتوں کامعاشی استقلال(۳)دونوں صنفوں کاآزادانہ اختلاط ، (۱)مساوات کے معنی یہ ہیں کہ عورت اورمردصرف اخلاقی مرتبہ اورانسانی حقوق میں مساوی ہوں،بلکہ تمدنی زندگی میں عورت بھی وہی کام کرے جومرد کرتے ہیں،اوراخلاقی آزادی میں بھی عورت کے لیے اسی طرح ڈھیل دے دی جائے جیسے مردکے لیے ہے ،مساوات کے اس غلط تخیل نے عورت کواس کے فطری وظائف سے غافل اورمنحرف کردیاجن کی بجاآوری پرآج مشکلات کاسامناکرناپڑرہاہے معاشی ،سیاسی اوراجتماعی سرگرمیوں نے انہیں اپنے اندرجذب کرلیاہے اوروہ دفترسے لے کرکھیل کودمیں بھی نظرآنے لگیں ہیں،جس کی وجہ سے ازدواجی زندگی،بچوں کی تربیت ،خاندان کی خدمت،گھرکی تنظیم ساری چیزیں ان کے لائحہ عمل سے خارج ہوکررہ گئی ہیں،اخلاقی مساوات کے غلط تخیل نے عورتوں اورمردوں کے مابین بداخلاقی میں مساوات قائم کردی ہے وہ بے حیائیاں جوکبھی مردوں کے لیے بھی شرمنا ک تھیں اب عورتوں کے لیے بھی شرمناک نہیں رہیں۔
(۲)عورتوں کے معاشی استقلال نے مردکواس سے بے نیازکردیاہے وہ قدیم دورتھا کہ مردکمانے اورعورت گھرکاانتظام کرے اب جدید دور کا قاعدہ بدل چکا ہے ،عورت اور مرد دونوں کمائیں اورگھرکاساراانتظام بچوں سے لیکر والدین تک بازارکے سپرد کردیں۔
(۳)مردوں اورعورتوں کے آزادہ اختلاط نے عورتوں میں حسن کی نمائش ،عریانی اورفواحش کوغیرمعمولی ترقی دے رہی ہے اوروہ طرح طرح کے فیشن ایبل لباسوں میں ملبوس ہوتی ہیں جوساری دنیاکے معاشرے کوگنداکررہے ہیں،اس عریانی تہذیب کے پرستاروں نے اپنی اس کمزوری کوچھپانے کے لیے اس کانام ’’آرٹ‘‘رکھاہے ۔
یہ وہ چیزیں ہیں جنہوں نے مغربی معاشرے کی جڑیں ہلاکررکھ دیں ہیںآج ہرملک میں لاکھوں جوان عورتیں جن کی زندگیاںآزادانہ شہوت میں بسرہورہی ہیں،نعوذبااللہ آج دنیاانہیں کوآزادکہہ رہی ہے جس کے اندرنہ ہی کوئی اخلاقی طوروطریقہ ہے اوریہ زندگی گزارنے کے انسانی اصول بلکہ ہر جگہ رسوائی ہی رسوائی ہے اورعریانیت اورفحش کاری ہے ،ایسی صورت میں اگرسوال پیداہوتاہے کہ عورت کے لیے عدل وانصاف اوران کے ساتھ اخلاقی رویہ کیااختیارکرناچاہیے ،اورانہیں کیسی آزادی ملنی چاہیے توجواب یہی ہوسکتاہے کہ اسلامی دستورکواپنے زندگی کے اندراپنایاجائے اوراسلام نے جس کوجس درجے میں کھڑاکیااسی کے مطابق وہ اپنی زندگی گزارنے کاپابندرہے ،معاشرے میں بڑھتی ہوش ربافحاشیت ،صنفی بے راہ روی اوراخلاقی نہ ہمواریوں کااس سے بہترعلاج قطعاًنہیں ہوسکتا۔
[email protected]
[xyz-ihs snippet=”abul-lais”]

You may also like

Leave a Comment