Home اسلامیات اسلامی قانونِ طلاق کی معنویت

اسلامی قانونِ طلاق کی معنویت

by قندیل

مفتی اختر امام عادل قاسمی 

مہتمم جامعہ ربانی منوروا شریف سمستی پور 

آج کل اسلام کے قانون طلاق کو موضوع بحث بنالیاگیاہے ،اور ناسمجھی کی بناپر ایک خالص سویلین معاملے کوخواہ مخواہ کریمنل معاملے کارنگ دیاجارہا،اس لئے اسلامی نظام نکاح وطلاق کے تعلق سے چند بنیادی تصورات
پیش نظر رہنے چاہئیں :
٭نکاح سے خاندان بنتا ہے اور طلاق سے اجڑتا ہے ،نکاح کسی خاندان سےوابستگی کا نام ہے اور طلاق اس سے علٰیحدگی کا نام،نکاح سے رشتوں کو
استحکام ملتا ہے تو طلاق سے رشتے متزلزل ہوتے ہیں ،اسی لئے نکاح جتنی بڑی نعمت ہے طلاق اتنی ہی بڑی مصیبت،نکاح جس قدر اللہ کو پسند ہے ،طلاق
اسی قدر ناپسند ،نکاح کی بے پناہ ترغیب دی گئی ہے ،اس کے فضائل گنوائےگئےہیں ،اس کو نبیوں کی سنت قرار دیا گیاہے،اس کے برعکس طلاق سے ہر ممکن روکا گیا ہے،اس کو شیطانی عمل قراردیاگیاہے ،جس سے عرشِ رحمن کے پائے ہل
جاتے ہیں ـ
یہ نکاح وطلاق کے مسائل پر غو ر کرنے کا ایک پہلو ہےـ
٭اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ نکاح ہو یا طلاق ،دونوں ضرورت کی پیداوار ہیں، نکاح بھی زندگی کی ایک ضرورت ہے اور طلاق بھی،جس طرح بے ضرورت نکاح بےمعنیٰ ہے، اسی طرح بے ضرورت طلاق بھی سخت گناہ ، ضرورت کے وقت جس طرح نکاح ایک بے حد مطلوب چیز ہے ،اسی طرح ضرورت کے وقت طلاق بھی مصیبت کےبجائے بڑی نعمت ثابت ہوتی ہے،عزت وعصمت کی حفاطت،رشتوں کےاستحکام اور خاندان کی توسیع کے لئے نکاح کی ضرورت ہے ،تو ذہنی
ناموافقت،زندگی کی گھٹن اورباہمی اختلافات سے بچنے کے لئے طلاق ایک آزمودہ نسخہ ہے ، روتی،بلکتی اور سسکتی زندگی سے نکل کر کسی بہتر
متبادل تک پہنچنے کا اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں ، رشتوں کے ٹوٹنے کی چبھن سہہ لینا اذیت ناک زندگی اور خودکشی کی موت سے بہتر ہے ـ
٭نکاح اگر زندگی ہے تو طلاق اس کی موت ، زندگی قبول کی ہے تو موت کوبھی گلے لگانے کے لئے تیاررہنا چاہئے ،زندگی اور موت،نکاح اور طلاق ایک
ہی سکے کے دورخ ہیں،ہر آغاز کا جس طرح اختتام ہوتا ہے اسی طرح ازدواجی زندگی کے آغاز کا نام نکاح اور اس کے اختتام کاایک نام طلاق ہے ،آغاز اگر
عزیز ہے تواس اختتام سے وحشت کیوں؟ہاں اس کے کچھ بنیادی قواعدوضوابط ہیں،جن کوبرتنا ضروری ہے ،بے قاعدہ نہ آغاز اچھاہے اور نہ اختتام، زندگی ایک پھول ہے اور پھول اکثر کانٹوں سے ہم رشتہ ہوتے ہیں،انہی کانٹوں کے درمیان پھولوں کی جستجو کا نام زندگی ہے،پھولوں کی تلاش
کرنے والے کانٹوں سے فرار اختیار نہیں کرسکتے ،خار بھی کبھی گلوں کے لئے
زینت بن جاتے ہیں ـ گل حیات کے کھلنے اورمچلنے کا نام شادی ہے اور اس کے مرجھاجانے کا نام
طلاق ہے،اس دنیا میں کوئی ایسا پھول پیدا نہیں ہوا،جو سدا بہار رہاہو،پھول کی مکمل داستان کھلنے اور مرجھانے سے عبارت ہے ،ایک حالت پر رہنے
والی چیز پھول نہیں بلکہ کانٹے ہیں ،اگر ہم زندگی کو پھول تسلیم کرتے ہیں تو ہمیں اس کے مرجھانے لئے بھی منتظر رہنا چاہئے ،نکاح زندگی کو پھولوں
سے ہم رشتہ کرنے کانام ہے ، بساطِ حیات میں کانٹے بونے کا نام نہیں۔اسلام کا نظامِ نکاح وطلاق اس مقدس رشتہ کو پھولوں کی معنویت بخشتا
ہے ،جہاں قانونِ نکاح کے ساتھ قانونِ طلاق بھی موجود ہے ،اگر کسی نظامِ حیات اور قانونی ڈھانچے میں نکاح کے ساتھ طلاق کی شق موجود نہ ہوتو اس کامطلب ہے کہ نکاح اس کے نزدیک زندگی کو پھول سے ہم رشتہ کرنے کا نہیں بلکہ
زندگی میں کانٹے بونے کا نام ہے ،اس لئےکہ سدا قائم رہنے والی چیز پھول نہیں ،کانٹے ہیں ـ نکاح ایک معاہدہ ہےاور طلاق اس کی تنسیخ، نکاح وطلاق کے باب میں نظر وفکر کی ایک جہت یہ بھی ہے ،نکاح دو افراد
یا خاندانوں کے درمیان ہونے والے معاہدہ (کنٹریکٹ )کا نام ہے ،اسی معاہدےکو توڑدینے کا نام طلاق ہے ،جس طرح دو شخص اور خاندان باہم معاہدہ کرنےکے لئے آزاد ہیں ،اسی طرح ان کو نکلنے کے لئے بھی آزاد رہنا چاہئے ،دنیامیں کوئی ایسا معاہدہ نہیں جو قابلِ تنسیخ نہ ہو ،اٹوٹ اور دائمی معاہدے
دنیا کی تاریخ میں کبھی وجود میں نہیں آئے ،طویل المیعاد اور قلیل المیعاد کی تقسیم تو ممکن ہیں؛ لیکن بہر حال ہر معاہدہ کی ایک عمر ضرورہوتی ہے ،یہ کیا بات ہوئی کہ معاہدہ پر تو راضی ہیں مگر اس کو ختم کرنے
کے لئے راضی نہیں،ہر معاہدہ کچھ مقاصد اور مصالح کے تحت وجود میں آتا ہے ،اگر وہ معاہدہ ان مصالح اور مقاصد کے حصول میں ناکام ثابت ہو تو
دنیا کا ہر نظامِ تمدن اس کو قابل تنسیخ قراردیتا ہے،نکاح بھی زندگی کا ایک اہم ترین معاہدہ ہے ،جودوشخصوں یاخاندانوں کےدرمیان مقررہ اغراض ومقاصد کے تحت مخصوص مجلس میں مخصوص طریق پر وجود میں
آتا ہے ،اور باہم دونوں افراد؛ بلکہ اکثر دونوں کے خاندانوں کی لمبی مشاورت ،تبادلۂ خیال اور غور وخوض کے بعد انجام دیا جاتا ہے؛تاکہ مستقبل کے خدشات اور اندیشوں کو کم سے کم کیاجاسکے ،اور اکثر اس قسم کی احتیاطی پیش بندیاں مفید ہی ثابت ہوتی ہیں؛لیکن کبھی نکاح کے بعد تجربہ اس کے
برعکس بھی ہوتا ،اور فکر وخیال کی ناموافقت یا اتفاقی اسباب کی بناپرباہم اختلافات رونما ہوجاتے ہیں،شریعت میں ایسے مواقع پر مرد کوبصیرت
مندانہ حکمت عملی اور بالغانہ شعور سے کام لینے کی تلقین کی گئی ہے ،اوراگر معاملہ تنہا میاں بیوی سے نہ سلجھے تو دونوں کے خاندانوں کو بھی مداخلت کی اجازت دی گئی ہے ،لیکن جب خاندانی سطح پربھی مذاکرات کے باوجودمعاملہ حل نہ ہو تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جن امیدوں پر نکاح کا یہ معاہدہ عمل میں آیا تھا ،آئندہ زندگی میں ن کا پورا ہونا ممکن نظر نہیں آتا،اس لئے اب اس بے نتیجہ معاہدہ کو باقی رکھنا دانشمندی نہیں ہے ، اسی
انفساخِ معاہدہ کا نام طلاق ہے،بتائیے اس میں کیا قباحت ہے؟
مرد معاہدۂ نکاح کی تنسیخ کا تنہا مجازکیوں ہے؟
البتہ یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اس عقد (معاہدہ ) نکاح کا محرک چونکہ مرد ہوتا ہے ، رشتہ کی سلسلہ جنبانی بھی عموماً مرد کی جانب سے ہوتی ہے
،عورتوں پرفطری حیا کی بنیاد پر اس معاملے میں اقدامات کرنے کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ہے ،مرد ہی اس معاہدہ کا مرکزی کردار ہوتا ہے ، اوروہی
اپنے معیار پر رشتہ کو تلاش کرتا ہے ،اور معاملے کو آگے بڑھاتا ہے ،اس لئے آئندہ بھی اس معاہدے میں اس کی حیثیت مرکزی ہوتی ہے ، اور اگر اسے
محسوس ہو کہ عورت اس عقد میں اس کے مطلوبہ معیار کو پورا نہیں کررہی ہے ،اور افہام وتفہیم کی تمامتر کوششوں کے باوجود وہ مطلوبہ راستے پر نہیں آرہی ہے ،تو دستور معاہدہ کے مطابق مرد اپنے پارٹنر (عورت )کو معاملہ سے
خارج کرسکتا ہے اور بحیثیت بانی معاہدہ اس باب میں وہ بااختیار ہے ،اس لئےاپنے پارٹنر سےاسے اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے،جس طرح کہ
ایک شخص ایک مالیاتی کمپنی قائم کرتا ہے ،اوراپنے مخصوص معیار اور مقاصدکے تحت اس میں لوگوں کو شرکت کی دعوت دیتا ہے،اور پھر چند لوگوں کی
شراکت سے ایک کمپنی وجود میں آتی ہے ،لیکن اگر اس شخص کو( بحیثیت رکن
اول یا مرکزی کردار )کسی خاص پارٹنر کے بارے میں احساس ہو کہ وہ معاہدہ کی پاسداری نہیں کررہا ہے،اور ابتدائی تنبیہ وتفہیم کے باوجودوہ اچھاشریک ثابت نہیں ہورہاہے ،تو وہ یک طرفہ طور پر اس کی شرکت ختم کرنے کامجاز ہوتاہے ،اور کمپنی میں لگا ہوا اس کااثاثہ حسب تفصیل معاہدہ قابلِ واپسی ہوتاہےاور اس انفساخ عقد کی اس کو اطلاع دے دی جاتی ہے ،دنیا میں اس قسم کے کسی معاہداتی نظام میں ایسے موقعہ پر شریک کی مرضی مؤثر نہیں
ہوتی،بلکہ پالیسی ساز شخصیت کی مرضی ہی اصل حیثیت رکھتی ہے؛اس لئے
کہ کبھی ایک شخص کی مرضی پوری کمپنی کے لئے ضرر رساں ثابت ہوتی ہے،اسی طرح ازدواجی زندگی بھی ایک معاہدہ ہے ،اس میں بھی انفساخ عقد کےلئے مرد کو عورت کی مرضی جاننے کی ضرورت نہیں ہے ۔
عورت کو بھی انفساخ عقد کا حق حاصل ہے:
رہی یہ بات کہ کبھی انفساخ عقد کی ضرورت مرد کے بجائے عورت کو بھی ہوسکتی
ہےاور اسے محسوس ہو کہ اس مرد کے ساتھ اس کی زندگی پرسکون نہیں گذرسکتی ،لیکن مرد بحیثیت بانی معاہدہ ،اس عورت کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتا ،ایسی صورت میں شریعت اسلامیہ گوکہ براہ راست عورت کو انفساخ عقد کا
اختیار نہیں دیتی ،لیکن خلع یا دارالقضا کے عدالتی عمل کے ذریعہ اس معاہدے سے دستبردار ہونے کی اس کو اجازت دیتی ہے ،جس کی تفصیلات کتبِ فقہ
میں معروف ہیں ۔
 

You may also like

Leave a Comment