افتخاررحمانی ، دہلی
Email: [email protected]
Cont.8229066004
مولانافضیل احمد ناصری اپنی ولولہ انگیز نظمیہ شاعری کے ذریعے ملت کی راہ نمائی و رہبری معقول انداز میں کر رہے ہیں۔ وہ جہاں قرآن و تفسیراور حدیث و فقہ جیسے شرعی علوم کے استاذ ہیں،وہیں ان کی تدریس سے فارغ ہوکر ’’ احوالِ دل‘‘ نظموں اور شاعری کے ذریعہ رقم کرتے رہتے ہیں۔ علم ان کا خالص مشرقی و اسلامی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ مبارک عنصر بھی ان کی شخصیت کو مزید حسن عطا کرتا ہے کہ وہ علماے دیوبند کے معتدل مزاج و منہاج کے پیروکار و ترجمان بھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں کا ایک ایک حرف روحِ اسلامی کا ترجمان اور قوم کی حا لتِ زار کا مرثیہ ہے۔ان کے کلام کی پختگی، سلاست ، روانی اورآمد و الہام قاری کو انگشت بدنداں کر دیتے ہیں۔
مولانا ناصری کی نظم گوئی کے روشن پہلو:
نظم جن عناصر و خیالات کا تقاضا کرتی ہے اور خیالات کے جس تسلسل کا مطالبہ کرتی ہے اس کا اہتمام کرنا لازم ہے ، حالی نے مقدمۂ شعر و شاعری میں ان پر تفصیلی گفتگو کی ہے،گرچہ شاعروں نے ان امور پر توجہ نہ دی، نتیجتاً جس معیار کی نظمیں ہونی چاہیے تھیں وہ اب اردو ادب سے عنقا ہوچکی ہیں؛ بلکہ ستم تویہ ہے کہ نظم کی سادگی میں بھی غزلیاتی تموج و جوش اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ مولانا فضیل احمد ناصری نے اپنی نظموں میں ان اصول و ضوابط کی مکمل پابندی کی ہے ۔ نظم کی اپنی خوبیاں ہیں ، یہاں تخیل کی بلند پروازی اور مبالغہ آرائی نہیں ہوتی ؛ بلکہ عوام الناس کے دل و جگر میں اتر جانے والی ترکیبوں اور سہل الفہم استعاروں کی بندشیں ہوتی ہیں ، مولانا ناصری کی نظمیں بھی یہی کہتی ہیں:
تھکی نہ قوم ، صدائیں مری تھکاتے ہوئے
ہوا ہے ایک زمانہ مجھے جگاتے ہوئے
وہی تغافل پیہم ، وہی جہاں طلبی
خدا کے نام سے اپنا لہو بچاتے ہوئے
تمہیں نوائے اذاں بھی گراں گذرتی ہے
وہ جنگ گاہ بھی جاتے تھے سر اٹھاتے ہوئے
ہماری مردہ ضمیری کا حال مت پوچھو
فریب کھاتے ہیں اعداکے ، مسکراتے ہوئے
عوام ہی نہیں اب تو جناب واعظ بھی
دکھائی دینے لگے مے کدے کو جاتے ہوئے
ہجوم جلوۂ جاناں عذاب ہے یارب !
بڑے بڑے بھی نظر آئے ڈگمگاتے ہوئے
گنہ کرے ہیں مسلمان بے حجابانہ
حیا انہیں نہیں آئے ہے ، گل کھلاتے ہوئے
نہ وہ مرید برہمن نہ قائلِ زاہد
وہ جس مقام پہ پہنچے تو سر جھکاتے ہوئے
فرنگیانہ تمدن کو چھوڑ دو ورنہ
گروگے چاہِ ہلاکت میں لڑکھڑاتے ہوئے
قوم کا مرثیہ پڑھنا اور اس پر چاک گریبانی اس کے بس کا روگ و عمل ہے جس کے دل میں قوم کی پستی اور زبوں حالی پر کرب اور کڑھن ہو، جس نے قوم کو اغیار کے ہاتھوں لٹتے پٹتے دیکھا ہو اور ساتھ ہی ’’ انماالمؤ منین اخوۃ‘‘ کا ادراک رکھتا ہو ، مولانا ناصری کے دل میں وہی دردوکرب ہے،جس کا انھوں نے اپنی نظموں می اظہارکیاہے۔ مولانا ناصری نے اپنے مذکورہ اشعارمیں قوم کی بے حسی اور ’مردہ ضمیری ‘کی جو دل سوز منظر کشی کی ہے وہ تازیانۂ عبرت سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے اس بے حسی اور ’ مردہ ضمیری‘ سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ درس عبرت ہے۔ اور پھر کم از کم بحیثیت قوم ہمارے لیے اس سے سبق حاصل کرنے کے سوا کوئی چارہ کار بھی نہیں ہے۔ اعدا و اغیار سے بہ خندہ پیشانی فریب کھانا کسی زندہ قوم کے لیے عار ہی ہے ، مولانا ناصری نے اعدا و اغیار کی فریب دہی کا ذکر کرتے ہوئے قوم کی بے حسی اور درماندگی کودورکرکے اس میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کی ہے۔
ترغیب و تشویق :
قوم بگڑی تو کیا ہوا ؟ ستم ظریفی تویہ ہے کہ ’’جناب واعظ ‘‘ بھی اپنے انداز و بیان، اطوار و اعمال بدل چکے ہیں۔ گویا آج کے وقت میں قیادت خود گمر ہی اور زبوں حالی میں مست ہوگئی ہے ؛ لہٰذا قیادت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ قائدین اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلیں تو قوم از خود قائد کی رہنمائی میں ایک نئی دنیا آباد کرسکتی ہے۔ نظم میں جہاں حقیقت بیانی ہوتی ہے وہیں احوال معاصر سے بحث لازمی تصور کیا گیا ہے ، مولانا ناصری نے نہ صرف حقیقت بیانی کی ہے ؛ بلکہ احوال معاصر سے ترغیب و تشویق کے پہلو تراش کرقوم میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کی ہے۔ قوم میں پائی جانے والی خامیوں پر جہاں انہوں نے نکیر کی ہے ، وہیں انہوں نے مثبت راستے کی طرف رہنمائی بھی کی ہے۔ان کے لہجے میں جہاں خطیبانہ بانکپن ہے ،وہیں حقیقت بیانی بھی ہے ، ان اشعار میں مولانا ناصری کی حقیقت بیانی دیکھیں:
اہل ایماں کے لیے زہر ہے تہذیب فرنگ
اس کی تاثیر ہے انگور کی دختر کی طرح
جاؤ! اے اہل کلہ! سیکھ لو آداب سخن
بات چبھتی ہے تمہاری ہمیں خنجر کی طرح
چند دن کے لیے ہم نے انہیں مسند کیا دی
فیصلے کرنے لگے داورِ محشر کی طرح
اٹھ گئے عالمِ فانی سے وہ ارباب جنوں
جن کے دل صاف تھے ، جمشید کے ساغر کی طرح
ان اشعار میں مولانا نے جس حقیقت بیانی سے کام لیاہے وہ قابلِ دید ہے، تہذیبِ فرنگ جس کے متعلق اقبال و اکبر الٰہ آبادی نے بہت کچھ لکھا ، مولانا ناصری بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قوم کو اس سے دور رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ یہ ان کا خاصہ ہے کہ وہ محض قوم کے درد میں غلطاں ہیں نہ حرصِ اقتدار ہے، نہ ہوسِ شہرت و نمود، یہ ان کا درد ہے جو ان کو مدرسہ و مساجد کی چٹائی سے وراثت میں ملا ہے۔
سوز و گداز :
جب حقیقت اور گداز ایک ساتھ جمع ہوجائیں تو یہ حق نمائی کا مرکز بن جایا کرتے ہیں، مولانا ناصری کی نظموں کا یہی امتیاز و تفوق ہے کہ انہوں نے نازک خیالیوں سے ترک تعلق کرکے حقیقت پسندی اور گدازِ دل کو اختیار کرکے نظم گوئی کو نئی جہت و سمت بخشی ہے۔ وہ موروثی در د و کرب میں زخم خوردہ ہوکر ایک طرف جہاں تہذیبِ فرنگ سے بعد و ترک کا مشورہ دے رہے ہیں تو وہیں اہل دستار و قبا کی بھی نکیر کررہے ہیں کہ قوم کو اس وقت سچے قائد و رہنما کی ضرورت تھی ؛ لیکن قائد و رہنما حقیقی قائدانہ روح و عنصر سے عاری ہوگئے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے سب سے بڑے مرض کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری تباہی اور بربادی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم میں کوئی قلندر نہیں رہا؛بلکہ جا ہ طلبی کاسودا سمایا ہوا ہے ، باطنی طہارت ہم سے عنقاہوگئی ، اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہم نے شہنشاہِ کونین ﷺ کے طریق و سنت سے نفور و گریز کے عادی ہوگئے ؛ لہٰذا ہم پر دنیا کی بدترین قوم اور خسیس افراد مسلط کر دیئے گئے ، مولانا ناصری ان امور کی طرف یوں اشارہ کرتے ہیں
جس کو دیکھو وہی قارون بنا پھرتا ہے
کوئی جیتا نہیں دنیا میں قلندر کی طرح
ہیں وہی میری نگاہوں میں ولایت والے
اندروں جن کا ضیا بار ہو باہر کی طرح
ان کی قبروں کے نشاں بھی کہیں موجود نہیں
عیش تھا جن کا زمانے میں سکندر کی طرح
زندگانی ہے حقیقت میں حبابِ دریا
سانس جب تک ہے جیو اپنے پیمبر کی طرح
اور بات بھی سچی ہے کہ قوم کی زندگی اور مستقبل اسی وقت تابناک ہوگا جب قوم اپنے اصلی راہنما کی ہدایت پر عمل پیرا ہو، ہمارے آقا شہنشاہِ کونین ﷺکی سنتوں کو ہم نے چھوڑا ،انھیں اپنی زندگی میں کوئی حیثیت نہ دی، نتیجتاً پستی ہمارا نصیبہ بن گئی۔مسلمانوں کی زندگی کا ماحصل ہی اتباع رسول ہے ؛ لیکن جب مسلما نوں کا ایک معتدبہ حصہ سنت رسولﷺ سے گریز کرنے لگے گا تو اس صورت میں پستی اور اغیار کی چاکری ہی نصیب ہوگی۔ مولانا نا صری نے جہاں ایک طرف ماضی کی تابناکی سے قوم میں بیداری اور بلند ہمتی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے،وہیں موجودہ زبوں حالی سے درسِ عبرت لینے کی بھی تلقین کی ہے۔
خطیبانہ لب و لہجہ اور قومی درد :
کبھی شاعر قوم کو رجا وامیدکے ذریعہ بیدار کرتا ہے تو کبھی موج حوادث کا خوف دیتا ہے حتیٰ کہ شاعر قوم کو تہدید و وعید کے ذریعہ بھی خوابِ غفلت سے جاگنے کی صدا بلند کرتا ہے،پھر جب اسے مایوسی ہوتی ہے ،تو قوم کے ناگفتہ بہ حالات سے نالاں ہوکر بر سرِمنبر ’’ حرض المؤمنین‘‘ کی سنت زندہ کرنے لگ جاتا ہے ؛ لیکن قومی شاعر کی فطرت اور عادت ہوتی ہے کہ وہ قوم سے کبھی بدگمان نہیں ہوتا ہے۔ قوم کو جھنجھوڑتا ہے ، ڈھارس بندھاتا ہے ، اس کے زخموں پرمرہم رکھتا ہے اور اقدام و عمل کی راہیں دکھاتا ہے۔ مولانا ناصری چونکہ قرآن و حدیث کے مفاہیم و معانی کی گہرائی و گیرائی کا بھی ادراک رکھتے ہیں اورعلومِ کتاب و سنت کے بھی حامل ہیں ،اس لئے انہوں نے ان مبارک اثرات سے اردو نظم کے دامن کو بھر دیاہے ، ان کے اشعار میں کیف وسرور اور سو ز و نم کی کیفیت ملاحظہ کریں کہ کس طرح خود تو رویا ہے ؛ لیکن قوم کو رونے نہیں دیا ، تہدید توکی ہے ؛ لیکن قنوط و ناامیدی نہیں دی ؛ بلکہ امید و یقین کی نئی دنیا قائم کی ہے:
عقل والے ہیں بہت، آتش بجاں کوئی نہیں
ملک میں امت کا میرِ کارواں کوئی نہیں
صاف کہتی ہیں ہمیں یہ پے بہ پے کی جھڑکیا ں
تم میں اب اندیشہ سود و زیاں کوئی نہیں
وقت کی ٹھوکر نے بتلایا ہمیں یہ بارہا
ووٹ کی یاری ہے ہم سے ، مہرباں کوئی نہیں
انحطاطِ دینِ قیم کا تماشا دیکھئے
قائد ملت بہت ہیں ، اردغاں کوئی نہیں
یہ آسان لب و لہجے میں نوائے سروش ہے۔ گفتگو میں ژولیدگی نہیں ہے ، احوال کو بتدریج بیان کیا ہے اور مخاطب کو تہدید کے ساتھ امید و یقین کے جامِ صہبا کے جرعۂ ہو ش و خرد بھی نوازا ہے۔ انہوں نے جن امور کے فقدان کا ذکر کیا، وہ تو بدیہی ہیں ؛ لیکن جس امید و یقین کی دعوت دی ہے وہ نظم گوئی اور اردو شاعری کا شاہکار عنوان ہے۔ آسان اور سہل الفہم استعارے بھی ہیں،یوں محسوس ہوتا ہے کہ لفظوں کی سلسبیل سبک خرامی کے ساتھ بہہ رہی ہے۔ مولاناناصری ایک زندہ دل قومی درد کے حامل شاعر ہیں ، یہ از خود شاعر نہیں بن گئے ؛ بلکہ قوم کی ابتری اور زبوں حالی نے ان کو شاعر بنادیا، ان کی نگاہ تابناک ماضی کی طرف ہی نہیں ٹکی ہوئی ہے ؛بلکہ قومی سیاست سے بھی ان کی خصوصی دلچسپی ہے۔ انہوں نے اپنی خصوصی دلچسپی کا جس طرح اظہار کیا ہے وہ فقید المثال ہے ،انہوں نے حب الوطنی کے سوال پر قوم مسلم کی بہترین ترجمانی کی ہے، ذیل کے اشعار دیکھیں:
کوئی کتنا ہی کرے حب وطن کا اشتہار
ہم سے بڑھ کر صاحبِ ہندوستاں کوئی نہیں
دل میں ہے جذبات کا ہر آن اک محشر بپا
کس سے کہیے ، انجمن میں راز داں کوئی نہیں
کاش وہ لمحے ترے حصے میں پھر آنے لگیں
تو ہو اور تیرا خدا ہو ، درمیاں کوئی نہیں
مولاناناصری کی یہ نظم گوئی ان کی شاعری کا وہ حصہ ہے جس پر قوم اور اردو شاعری کو فخر کرنا چاہیے اور جس طرح انہوں نے آسان پیرایے ، قریب الفہم تعبیرات و استعاروں کو اختیار کیا ہے ،اس نے مطالب کو ذہن کے قریب ترکر دیا ہے۔زبان میں چاشنی کے ساتھ محمود خیالات کی حسین آمیزش بھی ہے۔ مولاناناصری کی یہ نظمیہ شاعری بلاریب ان کی شاعری کا لازوال حصہ ہے جو ان کی شاعری کو مستند بناتی ہے۔یہ وہ پہلو ہے جو ’’ حدیث عنبر ‘‘ سے بالاتر ہے ؛ بلکہ اس کی وجہ سے حدیث عنبرکو نئی زندگی مل رہی ہے۔ان کی شاعری کئی سمتیں اور راہیں استوار کرتی ہے ؛ بلکہ اسلامی روح و یقین اور ایمانی جذبے کے تحت جو اخلاص و بے لوثی نمایاں ہوتی ہے ،وہ مولاناناصری کا ہی خاصہ ہے۔ مولانا ناصری کا ایک مجموعۂ کلام ’’ حدیث عنبر ‘‘ کے نام سے بازار میں دستیاب ہے، جس میں مولانا ناصری کی شاعری کے خدو خال اور تخیل کی بلند پروازی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
اسلامی شاعری کا جدید استعارہ :مولانا فضیل احمد ناصری
previous post