نورالسلام ندوی،پٹنہ
زیر تبصرہ کتاب’’اردو صحافت کے فروغ میں مدارس کا حصہ ‘‘مدارس دینیہ کی صحافتی خدمات سے متعلق ہے ،ہر چند کہ مدارس اسلامیہ دینی تعلیم و تربیت اور اسلامی علوم و تحصیل کے مراکز ہیں ،جہاں مذہبیات، دینیات اور اسلامیات کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ اس کی تعلیم کا اپنا ایک نہج اور طریقہ کار ہے، مگر پھر بھی مدارس اسلامیہ اور اس کے فارغین اور تربیت یافتہ افراد نے مدارس کی چہاردیواری سے نکل کر شعبہ حیات کے مختلف میدانوں میں اپنی صلاحیت وقابلیت کے انمٹ نقوش مثبت کئے ہیں ۔ اردو زبان و ادب کی خدمت اور ترویج واشاعت کے حوالہ سے اگر بات کی جائے تو ان کی خدمات سنہرے حروف سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔ اردو صحافت کے فروغ اور پروان چڑھانے میں بھی مدارس اسلامیہ کے فارغین اور اس کے فیض یا فتہ افراد کا بڑا اہم رول رہا ہے ۔ باوجود اس کے کہ مدارس میں ’’صحافت‘‘ کو بطور پیشہ یا فن نہیں پڑھایا جاتا ہے، تاہم یہاں کے فضلا اور فارغین نے اردو صحافت کی آبیاری اور فروغ میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آج بیشتر اردو اخبارات میں رپورٹنگ سے لے کرایڈیٹنگ تک اور کمپوزنگ سے لے کر ڈیزائننگ تک خدمت انجام دینے والے افراد میں مدارس کے فارغین اور تعلیم یافتہ افراد کی اکثریت ہے ،لیکن مدارس کے خدمات کو اس نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ حالیہ چند برسوں سے اس جانب توجہ دی جانے لگی ہے اور مدارس کے صحافتی کارنامے کے حوالے سے چند کتابیں معرض وجود میں آئی ہیں ، اس تناظر میں جواں سال صحافی ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی کی کتاب ’’اردو صحافت کے فروغ میں مدارس کا حصہ ‘‘ ایک اچھی اور مفید کاوش ہے ۔
متذکرہ بالا کتاب میں یہ دکھلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ صحافتی میدان میں بھی مدارس اسلامیہ اور اس سے وابستہ افراد نے اپنی صلا حیت اور قابلیت کے جوہر بکھیرے ہیں ۔ 160 صفحہ کی اس کتاب میں 48 صفحہ تک مقدمہ اور مختلف دانشورں اور صحافیوں کے تاثرات ہیں،مشتاق احمد نوری سکریٹری بہار اردو اکادمی نے مقدمہ میں مدارس کے صحافتی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے مصنف کی کاوش کو سراہا ہے،ڈاکٹر جاوید حیات صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی ،پروفیسر علیم اللہ حالی،معروف صحافی ایس ایم اشرف فرید چیف ایڈیٹر روزنامہ قومی تنظیم، پٹنہ،سینئر صحافی راشد احمد اور مولانا خورشید عالم مدنی نے اپنے تاثرات میں مدارس کے صحافتی خدمات کا اعتراف کیا ہے اورمصنف کی ستائش کی ہے۔مصنف نے پیش لفظ میں اس تلخ حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ جب بھی میڈیا اورصحافت کی بات کی جاتی ہے اور اس موضوع پر بحث کی جاتی ہے تو دینی مدارس ، مسلم تنظیموں اور ملی اداروں سے شائع ہونے والے رسائل وجرائد کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے،جبکہ ملک کے کونے کونے سے یے رسائل شائع ہورہے ہیں،یے بھی اردو زبان کی آبیاری اور اردو صحافت کو پروان چڑھا رہے ہیں، لیکن اسے نظر انداز کر دیا گیاہے یا اسے الگ تھلگ چھوڑ دیا گیاہے ،حالانکہ ایسا کرنا اردو صحافت کی تاریخ کے ایک بڑے حصہ سے روگردانی کرنا ہے،اس کی بھی اپنی تاریخ ہے ،ان رسائل وجرائد کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔مصنف نے مذکورہ کتاب میں صحافت کی تعریف اور مختصر تاریخ کے بعد مدارس کی تاریخ اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے اور مدارس کا رشتہ ’’صفہ نبوی ‘‘سے جوڑا ہے ۔ ہندوستان میں مدارس کا آغازکب اور کیسے ہوا اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے اس کی خدمات کا اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد اصل موضوع سے بحث کی گئی ہے اور مدارس میں اردو صحافت کا آغاز منظر اور پس منظر بیان کیا گیا ہے ۔ مصنف نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ ’’تحفہ حنفیہ ‘‘ کس مدرسہ سے نکلنے والا پہلا اخبار ہے، جسے معروف عالم دین قاضی عبدالواحد نے 1897 ء میں مدرسہ حنفیہ پٹنہ سے نکالا تھا ۔’’ مدارس کی اردو صحافت نہج اور افادی پہلو ‘‘ کے عنوان سے مدارس سے نکلنے والے رسائل وجرائد کا موضوعاتی اور اسلوبیاتی جائزہ پیش کیا گیا ہے اور مدارس کے فیض یافتہ صحافیوں کے خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اس ضمن میں ان صحافیوں کا ذکر بطور خاص کیا گیا ہے جنہوں نے مدرسہ سے تعلیم حاصل کی اور بعد میں صحافت کے پیشہ سے وابستہ ہوئے اور پھر اسی کے ہوکر رہ گئے ۔ مولوی محمد باقر سے لے کر مولانا حامد انصاری وغیرہ تک کا شمار انہوں نے کروایا ہے اور ان کے حالات بھی اختصار سے قلم بند کئے ہیں۔
مدارس سے نکلنے والے اخبارات ، رسائل اور جرائد کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے اور بعض اہم رسائل و جرائد کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے ۔ تعمیر حیات لکھنؤ، ماہنامہ دارالعلوم دیوبند ، ماہنامہ محدث، ماہنامہ حیات نو ، اشرفیہ مبارکپور، ہدایت جئے پور، الہدی دربھنگہ ، راہ اعتدال عمر آباد ، صدق جدید مالیگاؤں ، طوبی چندن بارہ وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ رسائل و جرائد کے ذکر میں بعض اہم رسائل کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جبکہ بعض غیر اہم رسائل کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ امارت شرعیہ کا ہفت روزہ’’ نقیب ‘‘ اور جامعہ الرشاد سے نکلنے والا رسالہ’’ الرشاد‘‘ کا کوئی ذکر تک نہیں ہے ۔ ہندوستان کے طول عرض میں پھیلے ہزاروں مدارس سے رسائل وجرائد نکل رہے ہیں ، ظاہر ہے ہر ایک کا احاطہ مشکل ہے، لیکن مصنف اگر تھوڑی اور محنت سے کام لیتے اور کم از کم اہم مدارس سے نکلنے والے رسائل کا اجمالی ذکر ہی کر دیتے تو اس سے کتاب کی اہمیت دو چند ہو جاتی۔
اردو صحافت پر مدارس کے فارغین کی تصنیفات کے حوالہ سے مصنف نے جو کچھ تحریر کیا ہے وہ صرف کتاب کی ضخامت بڑھانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس موضوع پر مدارس کے تعلیم یافتہ مصنفین کی کتابوں کا عمدہ اور مختصر تجزیہ کیا جاتا اور نہیں تو کتاب اور مصنف کا نام ہی درج کر دیتے ، لیکن ایسا نہ کرکے کتاب کی پوری فہرست نقل کر دی گئی ہے ۔مصنف نے اردو صحافت پر مدارس میں سمیناروں کا انعقاد ،مدارس کے شعبہ صحافت اور اس کے نتائج اور مدارس میں اردو اخبار بینی کا ماحول کا تذکرہ کرتے ہوئے اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے کہ مدارس کے فارغین اور اس کے فیض یافتہ افراد کی ایک بڑی تعداد مختلف صحافتی اداروں اور شعبوں میں خدمت انجام دے رہی ہے کتاب کا یہ حصہ بڑا وقیع اور معلوماتی ہے ۔
ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی خود بھی مدارس کے خوشہ چیں رہے ہیں اور عملی صحافت سے وابستہ ہیں ،اللہ نے انہیں قلم کی امانت سپرد کی ہے جس کا استعمال وہ مثبت اور تعمیری طریقے پر کر رہے ہیں، انہوں نے اس بات کی حتی ا لمقدور کوشش کی ہے کہ مدارس کے صحافتی خدمات کا جامع احاطہ کیا جا سکے اور اس میں بڑی حدتک کامیاب بھی رہے ہیں ۔ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتارہا تو مدارس کی صحافتی خدمات کا بھر پور اعتراف ہوتا رہے گا ۔ کتاب کی زبان معیاری ،شستہ اور شگفتہ ہے ،طباعت بھی عمدہ اور نفیس ہے،امیدہے کہ علمی ،ادبی اور مدارس کے حلقوں میں اس شاندار علمی پیشکش کا استقبال کیا جائے گا ۔
E-mail:[email protected]
’’اردو صحافت کے فروغ میں مدارس کا حصہ ‘‘
previous post