محمد ابوبکر عابدی، سیتامڑھی
جدید وسائل ابلاغ کے ذریعے عوامی معلومات، رائے عامہ اور عوامی تفریحات کی باضابطہ اشاعت کا فریضہ انجام دینا صحافت کہلاتا ہے۔
صحافت ایسا فن ہے جس کے ذریعے قوموں اور ملکوں کے مابین باہمی رابطہ ہوتا ہے، اسی کے ذریعے لوگوں کو دنیا بھر کے بدلتے حالات سے واقفیت حاصل ہوتی ہے، قومی ملکی، بل کہ عالمی سطح پر برپا ہونے والے حادثات، سانحات اور واقعات، نیز انسانوں کے سماجی، سیاسی اور اخلاقی صورت حال سے آگاہی ہوتی ہے، صحافت چونکہ تہذیب وتمدن کی اشاعت او ر منصوبوں کی تکمیل کا اہم وسیلہ ہے، آج کل صحافت بہت ترقی کر چکی ہے، اس کا میدان بہت وسیع ہوچکا ہے ، ہر ملک اور ہر زبان میں صحافت پروان چڑھ رہی ہے، ہمارے ملک ہندوستان میں بھی اس پر بہت اہمیت کے ساتھ توجہ دی جاتی ہے، اور مختلف زبانوں میں اس کی تعلیم کا انتظام ہے، اس کی مضبوطی کو نظم وانتظام کی مضبوطی تصور کیا جاتا ہے ، حکومتیں اپنے اقتدار کی بقاء وبالادستی کے لئے صحافت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں اس لئے اپنے زیر اقتدار باشندگان کی تمام زبانوں میں صحافت کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے، پھر باشندگان ملک بھی اپنی آواز حکمراں طبقہ تک پہنچانے اور دنیا بھر میں پھیلاکر اس میں مضبوطی لانے کے لئے صحافت کو وسیلہ بناتے ہیں، چونکہ اردو بھی ایک زندہ اور معتبر زبان ہے اوراس زمانے میں برصغیر کے ایک بہت بڑے طبقے کی زبان اردو ہے وہ اپنے روز مرہ کی ضروریات بات چیت درس وتدریس کے لئے اردو زبان ہی کو وسیلہ بناتے ہیں اس لئے اردو میں بھی صحافت نے بلندی کے منازل طے کئے ہیں، عوام وخواص بالخصوص علماء کرا م کی توجہ کی بدولت اردو صحافت مستحکم ہوئی ہے بلکہ اپنے وطن ہندوستان کے بدلتے حالات پہ گہری نظر ڈالنے اور بدلتے حالات کے پیش نظر محسوس ہوتا ہے کہ اس دور میں فضلائے مدارس کا صحافت کی طرف قدم بڑھانا وقت کی اہم ضرورت، اور عصر حاضر کے ایک اہم فریضہ کو انجام دینا ہے، ماضی میں جہاں مدرسوں نے اسلامی ومذہبی صحافت کی ترویج وترقی کے لئے رسائل ومجلات نکالے، وہیں ایسے فضلاء کی بھی ایک بڑی کھیپ تیار ہوئی جنہوں نے اخباری صحافت میں بڑانام کمایا، اور اپنے قلم کی تیغ رانی سے باطل کی پنپتی ہوئی قوتوں کو دھول چٹائی۔
ویسے ہندوستان میں مذہبی صحافت کا آغاز تو بیسوی صدی عیسوی سے شروع ہوا۔ لیکن انیسوی صدی کو چوتھی دہائی سے لے کر اخیر تک ایسے متعدد رسائل ومجلات جاری ہوتے رہے ہیں، جن کا رنگ وآہنگ مذہبی تھا۔ ایک عرصے کے بعد ہندوستان کے مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں باہمی کشاکش شروع ہوگئی؛ چنانچہ ہندوستان میں برہمن سماج اور آریہ سماج والے ایک دوسرے سے بھڑ گئے، اسی طرح مسلمانوں میں طرح طرح کے فرقے وجود میں آئے، جو ہر وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ہمہ دم کوشاں رہتے ہیں، کبھی فریق مقابل کو مناظر ے کا چیلینج کرتے، تو کبھی خطابی رزم آرائیاں ہوتیں، اور کبھی رسائل، کتابچے پمفلٹ شائع کئے جاتے، اس طرح سے بھی ہندوستان میں اردو صحافت ترقی کے منازل طے کرتی رہی۔
۱۸۹۷ ء کا وہ پہلا رسالہ ہے جس میں ایک بڑے بریلوی عالم قاضی عبدالواحد عظیم آبادی نے مدرسہ حنفیہ پٹنہ سے سب سے پہلے ایک مذہبی رسالہ تحفۂ حنفیہ کے نام سے جاری کیا، اسی طرح اہل تشیع کے رسائل وجرائد کا آغاز بھی صوبۂ بہار کے ضلع سیوان کے شیعہ مرکز ’’کھجوا‘‘ سے ہوا، ان کا سب سے پہلا رسالہ’’الاصلاح‘‘ ۱۸۹۸ ء میں جاری ہوا۔ اردو کی مجلاتی ومذہبی صحافت کے ارتقا میں مکتب اہل حدیث کے رسائل وجرائد کا اہم کردار رہا ہے، اس مسلک کے ایک بڑے عالم مولانا ثناء اللہ امر تسری نے امرتسر سے ۱۹۰۳ ء میں ’’اخبارِ اہل حدیث‘‘ جاری کیا ، جو ۱۹۴۸ ء تک جاری رہا۔
۱۸۵۷ ء کے معرکہ میں ناکامی کے بعد جب علماء دیوبند نے اپنے طریقۂ کار میں تبدیلی کو اختیار کیا اور دارالعلوم کی داغ بیل ڈالی تو حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگی کا اس میں پورا خیال رکھا گیا اور موقع بموقع مناسب فیصلے لئے گئے،چنانچہ صحافت کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اردو زبان میں رسالہ نکالنے کا فیصلہ کیا گیا اور مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ ’’مہتمم دارالعلوم دیوبند کی ادارت میں پہلا پرچہ ’’القاسم‘‘ بہ طور نمونہ کے ربیع الاول ۱۳۲۸ ھ ۔ ۱۹۱۰ ء میں شائع ہوا، اس کے مدیر اعلیٰ مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ نائب مدیر مولانا سید اصغر حسینؒ ، اور سرپرست حضرت شیخ الہندؒ اور حضرت حکیم الامت قرار پائے۔ اس پرچے کا حجم ۳۲/ صفحات کا تھا اور اس میں اداریہ حضرت شیخ الہندؒ اور علامہ شبیر احمد عثمانیؒ وغیرہ کے مضامین کا ہوتا تھا۔ اس شمارے کا مقصد اصلی مسلمانوں کے لئے مذہبی، علمی اور تاریخی معلومات کا صحیح محققانہ ذخیرہ بہم پہچانا اور غلط خیالات کو مٹانا تھا، القاسم کے مقاصد میں یہ بھی تھا کہ اسلام کے نام پر مختلف فرقِ باطلہ کے پھیلائی ہوئی لغویات کا صحیح جواب دیا جائے؛ تاکہ سیدھے سادھے مسلمان ان کی گمراہیوں اور زہر ناکیوں سے محفوظ رہ سکیں اس کے دین وایمان کی حفاظت ہوسکے۔ رسالہ ’’القاسم‘‘ ۱۳۲۸ ھ سے ۱۳۳۹ ھ تک گیارہ سال جاری رہا۔ اور مختلف وجوہات کی بناء پر موقوف ہوگیا۔ پھر دوسری بار یہ رسالہ ۱۳۴۳ ھ سے ۱۳۴۷ ھ تک جاری ہوا۔ اور۱۳۴۷ ھ میں دوبارہ موقوف ہوگیا۔
اسی طرح دوسرا رسالہ (بہ یاد گار حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ) ’’الرشید‘‘ کے نام سے رجب ۱۳۳۲ ھ مئی ۱۹۱۴ ء میں جاری کیا گیا، اس رسالہ کے مدیر اعلیٰ حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ نائب مدیر مولانا سید اصغر حسینؒ تھے، او ریہ رسالہ سات سال تک پابندی سے شائع ہوتا رہا اور جمادی الآخر ۱۳۲۹ ھ ۔ مارچ ۱۹۲۰ ء میں بند ہوگیا ان رسائل کے علاوہ حاملین فکر دیوبند کے اور بھی کئی رسالہ شائع ہوتے رہے اور صحافت کو فروغ دیتے رہے،۔
اردو صحافت کے فروغ وارتقا میں ندوۃ العلماء کا رول بھی انتہائی اہم اور قابل قدر ہے، ندوے نے اپنے قیام کے بعد پے در پے کئی ایک اردو عربی رسالے نکالے، اور ۲۲/ جولائی ۱۹۰۲ ء ۔ ربیع الاول ۱۳۲۰ ھ میں ندوے سے سب سے پہلا رسالہ ’’الندوہ‘‘ شائع ہوا،یہ رسالہ بنیادی طور پر ان تمام اصولوں اور افکار وخیالات کا آئینہ دار تھا، جو ندوۃ العلماء کے بانیین کے ذہنوں میں کار فرما تھا۔ ’’الندوہ‘‘ کی کل مدت اشاعت تقریباً ۱۴/سال کے عرصے کو محیط ہے۔ ’’الندوہ‘‘ کو بند ہوئے جب ایک زمانہ بیت چکا تھا تو ۱۰/ نومبر ۱۹۶۳ ء کو ایک پندرہ روزہ رسالہ ’’تعمیر حیات‘‘ کے نام سے شروع کیا گیا اور اس کی ادارت مولانا محمد الحسنی کے سپرد کی گئی، اور آج یہ اپنی گونا گوں خصوصیات کی وجہ سے بر صغیر کے مشہور ومقبول ترین رسالوں کی صفِ اول میں رکھے جانے کے قابل ہے۔
فی الوقت ایسے مجلات ورسائل کی تعداد اچھی خاصی ہے، جو دارالعلوم دیوبند کے فکر ومزاج کے مطابق سرگرم عمل ہیں، اور ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے مدارسِ اسلامیہ سے شائع ہورہے ہیں،لیکن ان میں سب سے قدیم رسالہ ماہنامہ ’’دارالعلوم‘‘ ہے۔ یہ رسالہ ماہ وسال کی طویل ترین مسافت طے کرچکا ہے، لیکن اس سے پہلے دارالعلوم دیوبند سے دو رسالے’’القاسم‘‘ اور ’’الرشید‘‘ نکل چکے تھے،جو اپنے مشمولات اور مضامین کی جامعیت کی وجہ سے عوام وخواص میں قبول عام حاصل کرچکے تھے ،بالآخر بیس سالہ وقفہ کے بعد حضرت مولانا محمد قاری طیب صاحب نوراللہ مرقدہ (سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند) کے زیر نگرانی ’’دارالعلوم‘‘ کے نا م سے پھر ایک ماہنامہ کا اجرا کیا گیا۔ جس کا پہلا شمارہ جمادی الاولیٰ ۱۳۲۰ ھ۔ مئی ۔ جون ۱۹۴۱ ء کو منظر عام پر آیا۔ موقع بموقع مختلف حضرات اس کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے فی الحال اس کی ذمہ داری حضرت مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری کے سپرد ہے، اور مہتمم صاحب کی نگرانی میں یہ رسالہ پابندی سے شائع ہورہا ہے۔
ویسے تو اب متعدد اداروں سے اردو زبان میں سیکڑوں ہزاروں رسائل واخبارات طبع ہوتے ہیں اور صحافت کے فروغ، اصلاحی کردار، تمدن کی تہذیب میں ان کا اہم کردار ہے، نیز ان سے شائع ہونے والی رسائل ومجلات میں عالمی وملکی سطح کے سیاسی مسائل اور دیگر عصری موضوعات پر بھی انتہائی بصیرت مندانہ تجزیے ہوتے ہیں، جن سے فضلائے مدارس کی عصری آگہی اور ان کے فکری افق کی وسعت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، اور ہندوستان کی اخباری صحافت میں فضلائے مدارس کی کثیر تعداد نظر آرہی ہے، جس کی وجہ سے اردو صحافت’’زعفرانی اثرات‘‘ لسانی، فحش کاریوں‘‘ اور فکری انحرافات سے کچھ حد تک پاک نظر آتی ہے، مگر چوں کہ موجودہ زمانہ میں اسلام دشمن عناصراور بالخصوص اہل مغرب نے اس کے ذریعہ کے سے پوری دنیا میں منفی اثرات کو فروغ دینے او راپنے عزائم کی تکمیل کے لئے پورے عالم کی گھیرا بندی کرلی ہے، نیز عالم اسلام کے باشندوں کے دلوں سے روحِ محمدی کو نکالنے میں مصروف ہے، چنانچہ آج عالم اسلام پوری طرح مغرب کی تہذیبی وثقافتی یلغار کی زد میں ہے، اسی لئے موجودہ زمانے میں اس کی زہر ناکیوں سے نمٹنے کے لئے صحافت کا عمومی ارتکاز مذہبی امور پر دینا حد درجہ ضروری ہوگیا ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ فرزندانِ مدارس کا میدان صحافت میں آکر کام کرنا وقت حاضر کی بہت اہم ضرورت بن گیاہے۔
خلاصہ یہ کہ دور حاضر میں ملک وبیرون ملک میں اردو صحافت کی ترقی اور ترویج واشاعت میں مدارس اسلامیہ کا اہم رول ہے، جس کا انکار آفتاب نیم روز کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔
متعلم شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند
8218206330
اردو صحافت کے فروغ میں مدارس اسلامیہ کا کردار
previous post