غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِاہتمام بین الاقوامی غالب تقریبات کاایوانِ غالب کے آڈیٹوریم میں نہایت ہی پُروقارافتتاح
نئی دہلی: 22دسمبر (قندیل نیوز) غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِاہتمام بین الاقوامی غالب تقریبات کاافتتاح شام چھ بجے ایوانِ غالب کے آڈیٹوریم میں نہایت ہی پُروقار طریقے سے ہوا۔ افتتاحی اجلاس میں جسٹس آفتاب عالم، پروفیسر ہربنس مکھیااورڈاکٹرایس وائی قریشی کے دستِ مبارک سے غالب انعامات کی تقسیم عمل میں آئی اس دفعہ کاغالب انعام اردو تحقیق و تنقید کے لئے پروفیسر قاضی جمال حسین کو، فارسی تحقیق و تنقید کے لئے پروفیسر حسن عباس،اردونثرکے لئے شفیع مشہدی،اردوشاعری کے لئے پروفیسرشہناز نبی ، اردو ڈرامے کا ڈاکٹر کاظم اور مجموعی ادبی خدمات کے لئے پروفیسر ارتضیٰ کریم کو سرفراز کیاگیا۔ یہ انعام مومنٹو، سرٹیفکٹ اور ۷۵ہزار روپے پر مشتمل تھا۔سیمینارکاافتتاح کرتے ہوئے ممتازمؤرخ پروفیسر ہربنس مکھیانے فرمایاکہ’ اردو ادب میں تقسیم اوراس کے نتائج‘کے موضوع پر بہت زیادہ تحقیق نہیں کی گئی اور شاید ادب میں اور بھی کم کا م ہوا ہے ۔جن وجوہ سے ملک تقسیم ہوا تھا شاید اس کا مقصد ابھی تک حاصل نہیں ہوسکا ہے،جس وجہ سے پاکستان کی تشکیل عمل میں آئی تھی ،اس کے فورا بعد جناح نے اعلان کیا تھا کہ ہمارا ملک اور اس کے عوام کا مذہب اس کا ذاتی معاملہ ہوگا ۔آج بھی دو قومی نظریے کو مورخین ومصنفین مستردکرتے رہتے ہیں ۔تہذیب وثقافت کے بعد کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ عرب کلچر سے نہیں جڑ پاتا ۔حالاں کہ پاکستان کی تقسیم ہی ’لاالہٰ ‘کی بنیادپر ہوئی تھی ۔ہمارے یہاں بھی سیکولر نظام کے نیچے انگارے سلگتے رہے اور آج اس نے شعلے کی شکل اختیارکرلی ہے ۔ہندوستان بھی اپنی تقسیم کی پہچان نہیں پاسکا ہے اور ہماری تلاش جاری ہے ۔ہم نے جمہوری نظام کے نفاذ کا فیصلہ کیا اور پاکستان کے مقابلے ہم جمہوریت کے معاملے میں کامیاب رہے ،مگر ووٹ دے کر حکومت کا قیام ہی اصل جمہوریت ہے اور اس کے بعد خاموش ہوجانا ہی جمہوریت ہے کیا ۔جمہوریت کا کردار اتنا ناقص ہے کہ ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا پڑے گاکہ کیا یہی جمہوریت ہے ،جس کے لیے عظیم لیڈروں نے کوششیں کی تھیں ۔
مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے موجود سابق چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر ایس۔وائی۔قریشی نے کہاکہ مجھے خوشی ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ اپنی علمی وادبی سرگرمیوں کی وجہ سے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری دنیامیں جانا جاتاہے۔ اس دفعہ کاسمینار اپنے موضوع کے اعتبار سے کافی اہم ہے اورمجھے پوری امید ہے کہ ہمارے جواسکالرزتشریف لائے ہیں وہ موضوع کے تعلق سے اہم گفتگو کریں گے۔
جلسے کی صدارت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آفتاب عالم نے اپنی صدارتی گفتگو میں کہاکہ تقسیم ہند کے اثرات میں سب سے نمایاں تویہ ہے کہ بیسویں صدی کے دوسرے نصف کا اردوادب تقسیمِ وطن کا اردو ادب ہے۔ تقسیم کے نتیجے میں لاکھوں افراد جس اجتماعی اور انفرادی کرب کاشکارہوئے اس کابے مثال اظہار ہمارے ادب میں ہوتاہے۔ہمارے رنج و الم نے ہمارے ادب کومالا مال کردیااو رہمارے اشکوں سے ہماراادب درخشاں ہے۔ منٹو،انتظار حسین، قرۃ العین حیدر نے تقسیمِ ہند پربے حد پُراثر اور دلدوز کہانیاں لکھی تھیں۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنی استقبالیہ تقریر میں کہاکہ یہ غالب تقریبات ہمارے لیے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں ملک اور بیرونِ ملک کے اساتذہ، اسکالرز، ادبا،شعرااورطلبہ بڑی تعداد میں اس تقریب کاحصہ بنتے ہیں۔ ہم نے پچھلے کئی برسوں سے اپنے سمینارکادائرہ بھی وسیع کیاہے تاکہ ادب کے ہرموضوعات پر کھل کر گفتگو ہوسکے۔ اس دفعہ کاموضوع بھی نہایت دلچسپ ہے۔ تقسیمِ ہند اور اس کے نتائج کے اثرات آج تک ہماری زندگی سے وابستہ ہیں۔ ہماراادب اِن مسائل سے بھرا ہواہے لہٰذا مجھے پوری امید ہے کہ اس اچھوتے موضوع پربھی کچھ اہم باتیں ہمارے سامنے ضرور آئیں گی۔ جس سے ہمارے علم میں ضرور اضافہ ہوگا۔ڈائرکٹر ڈاکٹر سید رضاحیدرنے اپنی ابتدائی گفتگو میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے تاریخی پس منظرپر مختصر روشنی ڈالتے ہوئے اس سال کی سرگرمیوں پر گفتگو کی۔ خاص طورپر انہوں نے یہ بھی کیاکہ ہم پچھلے ۴۸برسوں سے غالب کی یومِ ولادت پراِن تقریبات کااہتمام کررہے ہیں۔ اردو ادب اور غالب کے نام پر ہونے والایہ اجتماع اب ہماری تاریخ کاایک خوبصورت حصہ بن چکا ہے۔ اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کی نئی مطبوعات، گنجینۂ معنی کاطلسم(رشید حسن خاں)، امداد امام اثر،ادبیات، تصورات اور نوآبادیات(سرورالہدی)، اردو ادب میں غیر کاتصور(صدیق الرحمن قدوائی)، مطالب الغالب(سہا مجدّدی)، قرۃ العین حیدر فن اور شخصیت(صدیق الرحمن قدوائی)، غالب نامے کے دوشمارے کے علاوہ ادارے نے شارحینِ غالب پر مونوگراف کی شکل میں ایک سریز شروع کی ہے، جس میں تین مونوگراف حسرت موہانی(قمر الہدی فریدی)، سہا مجدّدی(سرورالہدیٰ) اور عبدالرحمن بجنوری(خالد علوی)کااجراء بھی عمل میں آیا۔ جلسے میں بین الاقوامی شہرت کے حامل غزل سنگر امریش مشرانے غالب اور دیگر شعراء کے کلام سے جلسے کونہایت ہی پُرلطف بنایا۔افتتاحی اجلاس میں بڑی تعدادمیں اساتذہ،اسکالرز، شعرااور مختلف علوم و فنون کے افراد موجود تھے۔