عبدالعزیز
امتحان جب سر پر ہوتا ہے تو امتحان کی تیاری میں کوئی بھی طالب علم جو امتحان میں امتیازی نمبروں سے پاس کرنا چاہتا ہے وہ اپنے ایک ایک سکنڈ کو امتحان کی تیاری میں صرف کرتا ہے۔ ہر وہ کام جو اس کی تیاری میں خلل انداز ہوتا ہے اس سے گریز کرتا ہے۔ اس کے برعکس جو امتحان کو سر پر ہونے کے باوجود سمجھتا ہے کہ ابھی بہت وقت ہے وہ اپنا قیمتی وقت آرام طلبی، فضول گوئی اور کھیل کود کی نذر کر دیتاہے۔ جب امتحان کا پرچہ اس کے ہاتھ میں آتا ہے تو وہ ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔ پھر وہی جو سر پر امتحان نہیں سمجھتا تھا ناکامی اور نامرادی اس کے سر پر ہوتی ہے مگر کف افسوس کرنے کے سوا اس کے حصہ میں کچھ بھی نہیں آتا ہے۔ آج ملک میں جو حالت ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے امتحان سر پر ہوتا ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ 2019ء سر پر ہے وہ کامیاب طالب علم کی طرح تیاری میں مصروف ہیں۔ ایک منٹ بھی اپنا ضائع نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ ہر ایک کو عمل (Action) کی طرف مائل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ اچھی اور بہت اچھی بات ہے۔
ملک میں انسانیت اور انصاف کی بقا کا سوال ہے۔ جو لوگ درندگی اور حیوانیت کے خلاف تھے، وہ بھی مصلحت کے شکار ہوگئے یا نتیش کمار اور محبوبہ مفتی کی طرح خوفزدہ ہوگئے کہ ان کو یا ان کے لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے کیا جاسکتا ہے۔ اتر پردیش میں باپ پہلے ہی مودی مودی کر رہا تھا۔ بیٹا مودی کے خلاف تھا۔ راہل گاندھی کے ساتھ تھا مگر اب وہ بھی نتیش اور ملائم کے نقش قدم پر رواں دواں ہوگیا ہے۔ اب اسے نہ بی جے پی کی انتہا پسندی خراب معلوم ہورہی ہے۔ نہ یوگی اور مودی کی آمریت پسندی سے اسے یا ملک کو کوئی خطرہ نظر آرہا ہے۔
ادھر سی پی ایم 2019ء کی تیاری کرنے کے بجائے بحث و مباحثہ میں مصروف ہے۔ اپنے اندر کی گروہ بندی کو مضبوط کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ایک دوسرے کو شکست دینے میں مزا آرہا ہے۔ ایک گروہ جسے مودی کا خطرہ تو معلوم ہوتا ہے مگر وہ ہٹلر اور مسولینی سے کم خطرہ سمجھتا ہے جس کی وجہ سے وہ مودی یا اس کی خطرناکی کے خلاف محاذ آرائی کو بے سود سمجھتا ہے اور بی جے پی اورکانگریس کو ایک ہی پلڑے میں رکھنے کی دلیل دیتا ہے جبکہ دوسرا گروہ مودی، اس کی پارٹی اور مدر پارٹی آر ایس ایس کی خطرناکی کو بھانپ چکا ہے اور ملک میں جو لاقانونیت اور مطلق العنانیت اور بدعنوانیت بڑھتی جارہی ہے اس کا مل جل کر مقابلہ کرنا چاہتا ہے مگر پہلا گروہ جو آرام طلبی کا شکار ہوچکا ہے اس کی تعداد زیادہ ہے اس لئے دوسرے گروہ کو رائے شماری میں شکست فاش ہورہی ہے جس سے بی جے پی کے خیمے میں خوشی اور مسرت ہے۔ مارکسی پارٹی جو سیکولر پارٹیوں میں سب سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتی ہے جس سے امید تھی کہ وہ سیکولر پارٹیوں کی رہنمائی کرے گی وہ ایک طرح سے بانجھ بنتی جارہی ہے اور اس کے اندر کمزوری پورے طور پر داخل ہوچکی ہے۔ یہی وہ پارٹی تھی جو وی پی سنگھ (وشوا ناتھ پرتاپ سنگھ) کی آواز پر کانگریس کی مطلق العنانیت کو ختم کرنے کیلئے ایک ایسے محاذ کا ساتھ دے رہی تھی جس میں جن سنگھی عناصر جو آج بی جے پی کے نام سے جانے جاتے ہیں شامل تھے۔ سی پی ایم کو راہل گاندھی اور نریندر مودی میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا ہے۔ یہی وہ صورت ہوتی ہے جب جمہوریت کمزور اور آمریت کو تقویت ملتی ہے۔ آدمی کو دور یا قریب سے کوئی شئے نظر نہیں آتی۔
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ یشونت سنہا نے نیشنل فورم (National Forum) بنانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی تشکیل 30جنوری کے دن ہوگی جس دن گاندھی جی کا قتل آمریت کے ہاتھوں ہوا تھا۔ اس فورم میں ہم خیال شخصیتوں کو جو ہر اپوزیشن پارٹی میں ہیں جوڑنے کی کوشش ہورہی ہے جس میں کامیابی مل رہی ہے۔ اس فورم کا دل و جان سے ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں میں سے ایسے لوگ جو اس فورم کو تقویت پہنچا سکتے ہیں ان کو شامل کرنا چاہئے۔ ایسے لوگ شامل نہ ہوں پھر بھی اس کی حمایت کرنا ضروری ہے۔ اس فورم کو کانگریس کی حمایت بھی حاصل کرنا چاہئے۔ سیاسی میدان میں ملک گیر پیمانے پر کانگریس سے ہی بھاجپا کا مقابلہ ہے۔ اس لئے کانگریس کو نظر انداز کرکے لڑائی آسان نہیں ہوسکتی۔ گجرات میں اسمبلی کے حالیہ انتخاب سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ گجرات کے تین جواں سال لیڈروں نے اپنی دنیا آپ پیدا ضرور کی مگر ان کو محسوس ہوا کہ کانگریس سے ملے بغیر بھاجپا کو دھکا دینا مشکل ہے۔ سب نے کانگریس کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے بی جے پی بال بال بچی۔ یہ الگ بات ہے کہ کانگریس کے کچھ نادان لیڈروں کے بیانات نے بھاجپا کی ڈوبتی نیّا کو پار لگادیا۔
بہر حال جولوگ کانگریس کو مائینس (Minus) کرکے بی جے پی یا نریندر مودی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں حقیقت میں اس سے بی جے پی ہی کو فائدہ پہنچے گا۔ خواہ وہ چاہیں یا نہ چاہیں۔ مسلمانوں میں سے ایک ایسے نوجوان لیڈر کی ضرورت ہے جو فرقہ پرستی سے دور ہو، انسان دوستی کیلئے مشہور ہو تا کہ ہندو اور مسلمان اس کی طرف مائل ہوسکیں اور اور مسلمانوں کا پورا ووٹ خاموشی سے فرقہ پرستی کے خلاف جمہوریت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے حق میں پڑے۔ یوپی اور بہار میں مسلمانوں کو رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔ انہی دونوں ریاستوں میں نتیش کمار اور اکھلیش جیسے مرد آہن آج بی جے پی کی گود میں چلے گئے ہیں۔ مسلمانوں کو اچھی طرح بتانا ہوگا کہ یہ کیسے لوگ ہیں؟ یوگی ادتیہ ناتھ پر کئی سنگین مقدمات تھے مگر اکھلیش کی حکومت ان کو چلانے میں پس و پیش کر رہی تھی۔ آج یوگی پر جو مقدمہ ہے وہ جج صاحبان یوگی یا یوگی حکومت سے مقدمہ چلانے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔ یوگی حکومت نے لکھ کر بھیج دیا ہے کہ سارے مقدمے نہ چلائے جائیں یعنی یوگی خود یوگی کو معاف کر رہے ہیں۔ آج اکھلیش کی مہربانیوں سے ہی یوگی جیل کے اندر نہیں ہیں۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ سب ایک ہی انڈے کے چٹے بٹے ہیں۔ ان پر زیادہ بھروسہ کرنا بیوقوفی ہے۔
موبائل: 98439068 [email protected]
آنے والے عام انتخابات اور موجودہ سیاسی منظرنامہ
previous post