نایاب حسن
ہندوستان کودنیاکا عظیم تر "جمہوریہ ” کہاجاتاہے،اس پرہمیں بجاطورپرفخرہوناچاہیے اوراسی احساس کے ساتھ ہمیں آج کے یادگاردن کومنانابھی چاہیے، مگراس کے ساتھ ہی ہمیں ان سوالوں کاجواب بھی تلاش کرناہوگا، جووطنِ عزیزکی زمینی صورتِ حال کے مدِ نظرپیداہوتے ہیں،ہمارے ملک کے موقردستورمیں نہ صرف اس پرزوردیاگیاہے کہ ملک میں سیاسی جمہوریت کوقائم اوربرقراررکھنے کی ہرممکن تدبیرکی جائے؛ بلکہ اس کے ساتھ ہی ہمارادستور یہ بھی کہتاہے کہ سماجی ومعاشی سطح پرجمہوری اقدارکوفروغ دیناہوگا، تبھی ہم حقیقی معنوں میں ایک جمہوری ملک اور جمہوریت کے پاسدارکہلاسکتے ہیں ـ آئینِ ہندکے اس پہلوکوسامنے رکھتے ہوئے جب موجودہ حقائق پرایک نظرڈالتے ہیں، توہمیں سخت مایوسی ہوتی ہے کہ ملک کوآزادہوئے ستراورجمہوری دستور ملے اڑسٹھ سال کاایک طویل عرصہ گزارنے کے باوصف ہم اپنے ملک میں حقیقی جمہوریت قائم نہیں کرسکے، سیاست کے شعبے میں تولولی لنگڑی ہی سہی، جمہوریت موجودہے، مگرمعاشی وسماجی سطح پرآج بھی ہم اس جمہوریت سے کوسوں دورہیں، جس کاخواب یاجس کی تصویرہمیں آئینِ ہندمیں دکھائی گئی تھی، اس کے اسباب ایک سے زیادہ ہوسکتے ہیں، مگر اجمالی طورپر اس طویل وعریض ملک میں پائی جانے والی طبقاتی ونسلی تفریق، معاشی واقتصادی امتیازات، برادری وادغیراخلاقی وغیرانسانی جذبات،مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے مابین پائی جانے والی گہری خلیج، باہمی افہام وتفہیم اورایک دوسرے کے ساتھ پرامن مکالمے کی نایابی، دولت اورسرمایے کی تقسیم یاحصول کے بہت سے غیرجمہوری وغیرقانونی ذرائع ووسائل کاشیوع؛ یہ وہ اسباب ہیں، جن کی بناپراتناطویل عرصہ گزرنے کے باوجود ہندوستان اپنے یہاں حقیقی جمہوری تشخص قائم کرنے میں ناکام رہاہے ـ
اس ناکامی کاایک بڑاسبب یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں سرگرم مختلف الفکرسیاسی جماعتوں نے جمہوریت یاسیکولرزم کو اپنی سیاسی برتری کے حصول کےذریعے کے طورپرتواستعمال کیا، مگرفی الحقیقت وہ جمہوری طرزِ فکراور طریقۂ عمل سے یکسر عاری رہی ہیں ـ
کسی بھی جمہوری سٹیٹ کی کامیابی کاانحصارزیادہ تروہاں کے عوام کی بیداریِ شعور اورسیاسی تیقظ پرہوتاہے؛ کیوں کہ جمہوری طرزِ سیاست وحکومت کی تعریف ہی یہ کی جاتی ہے کہ عوام کی حکومت عوام کے لیے اورعوام کے ذریعے ہو،مگرمقامِ صدافسوس ہے کہ ہمارے یہاں تاہنوزعوامی سطح پروہ بیداری پیدانہیں ہوسکی، جوکسی سٹیٹ میں حقیقی جمہوریت کے قیام اوراس کے تحفظ وبقاکے لیے ضروری ہوتی ہے، بعض مخصوص اسباب کی بناپرہمارے ملک کی مین سٹریم سیاست اب بھی مذہب کے سہارے اوپراٹھتی اوراسی کی وجہ سے اس کی سطح نیچے کوآجاتی ہے، بہ ظاہر عوامی حقوق ومفادات سیاست کے اہم موضوع ہوتے ہیں، مگرسیاست دانوں کاحقیقی ایجنڈاکچھ اورہی ہوتاہے، جسے بروے کارلانے کے لیے وہ ہراس حربے کواختیارکرتے ہیں، جوغیردستوری، غیرآئینی وغیرجمہوری ہوتاہے، عوام زیادہ ترمحض کسی سیاسی پارٹی کے عروج اوردوسری پارٹی کے زوال کے وسیلے کے طورپراستعمال ہوتے ہیں؛ چنانچہ ہم پانچ یادس سال کسی سیاسی گروہ کی حکومت کوجھیلتے ہوئے جب اکتاجاتے ہیں، توسیاسی تبدیلی کی ایک آندھی سی چل پڑتی ہے، جب غبارچھٹتاہے، توتختِ حکومت پرکسی دوسری سیاسی جماعت کے بازی گربراجمان دکھائی دیتے ہیں اورپھراس نئی حکومت میں عوام کی ناکامی، نامرادی، تہی دامنی ومایوسی کاایک نیادورشروع ہوجاتاہے ـ جمہوریت کی ایک خوبی یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی عنانِ تبدیلی عوام کے ہاتھ ہوتی ہے، مگرمسئلہ یہ ہے کہ عوام کے اذہان وقلوب میں فکروشعور کی قندیل بھی توروشن ہو، جب خودہم کسی بھی قسم کے احساس سے محروم ہوں گے، تویقینا اپنااوراپنے حال و مستقبل کافیصلہ ہم خودنہیں کریں گے، کوئی اورکرے گا اورہم فقط استعمال ہوتے رہیں گے، سویومِ جمہوریہ کاجشن یقیناً دل دماغ میں ایک خوشگواراحساس پیداکرتا ہے، مگرساتھ ہی ذراان تلخ سچائیوں سے بھی آنکھیں ملانے کی ہمت کریں، جوہمارے چہارجانب موجودہیں اورہماری جمہوریت کی ناکامی کامخول اڑارہی ہیں ـ اس وقت دنیاکے نقشے پرکئی ایسے ممالک ہیں، جنھیں آزادہوئے ہمارے جتنی یااس سے بھی کم مدت گزری، مگروہ سیاسی شفافیت اورسماجی، تہذیبی ومعاشی خوشحالی وترقی میں کہیں سے کہیں پہنچ گئے؛ کیوں کہ انھوں نے اپنے یہاں حقیقی جمہوریت کوقائم کیااوراسے نہایت خوبی سے برتا، مگرہم چوں کہ صرف جمہوریت کی لفظیات کورٹتے رہے اورخودفریبی کاشکاررہے؛ چنانچہ سترسال کے طویل ترین عرصے کے بعدبھی ہم اس سوال کاکوئی معقول جواب نہیں تلاش کرپارہے کہ کیاہندوستان واقعی ایک جمہوری ملک ہے؟
آنکھیں تاریک، نصیب ان سے زیادہ تاریک
previous post