Home نقدوتبصرہ آزادیِ ہنداورتحریکِ خلافت: ایک مطالعہ

آزادیِ ہنداورتحریکِ خلافت: ایک مطالعہ

by قندیل

نایاب حسن
آزادی کی جدوجہد کسی ایک قوم ،قیادت یا تحریک سے عبارت نہیں تھی،اس کے پس منظرمیں پوری ہندوستانی قوم اور اس قوم کے مختلف طبقات کی پرخلوص قربانیاں،جدوجہد،جاں فشانیاں اور وطن عزیز کو برطانوی استعمار سے نجات دلانے کے لافانی جذبے کام کررہے تھے،آزادیِ ہند کے لیے لگ بھگ دوصدی تک اس ملک میں مختلف تحریکیں چلیں ،انقلابات اٹھے،کتنے ہی جیالوں نے تختہ ہاے دارکوچومااور کتنے ہی جاں سپار مجاہدینِ آزادی نے گلشنِ ہندکواپنے خون سے سینچا۔تحریکی سطح پر آزادیِ وطن کے حصول کے لیے جن منظم کوششوں کو غیر معمولی اور عالمگیر شہرت حاصل ہوئی اور جنھوں نے بلاتفریقِ ملت و مذہب ملک بھر کے شہریوں کو متاثر کیا،ان میں تحریکِ خلافت کانام نہایت روشن و تابناک ہے،اس سے قطعِ نظر کہ نتائج کے اعتبار سے یہ تحریک کس حد تک کامیاب رہی،اس حقیقت کو آزادی ہند کی تاریخ سے آگاہی رکھنے والا ہر باشعور ہندوستانی تسلیم کرتا ہے کہ اگر خلافت تحریک کی نمود نہ ہوتی،تو متحدہ ہندوستان میں ہندو۔مسلم اتحاد کی وہ عظیم الشان بنیاد نہ کھڑی ہوتی ،جواس تحریک کے ساتھ کھڑی ہوئی اوربہت ممکن تھا کہ آزادیِ وطن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے میں اوربھی تاخیر ہوجاتی۔گوکہ خلافت تحریک کا راست تعلق ہندوستان کی بجاے ترکی سے تھا،مگر اس کے پس پردہ جو مقاصد کام کررہے تھے،ان کا تعلق بلا واسطہ ہندوستان ، ہندوستانیوں کی آزادی اور انگریزی مظالم سے خلاصی حاصل کرنے کی تدبیروں سے تھا،یہی وجہ تھی کہ بظاہر خالص مذہبی اور مسلمانوں سے وابستہ نظر آنے والی اس تحریک میں گاندھی جی جیسے قومی سطح کے لیڈر نے نمایاں اور سربراہانہ حصہ لیا اورمصطفیٰ کمال پاشا کے ذریعے خلافت کے خاتمے کے بعد انھوں نے واضح طورپر کہا کہ ’’مجھے غیب کا علم دیا گیا ہوتا اور میں جانتاکہ تحریکِ خلافت کا یہ انجام ہوتا،تب بھی میں تحریکِ خلافت میں اسی انہماک سے حصہ لیتا،خلافت کی یہی تحریک ہے،جس نے قوم کو بیداری عطاکی،میں پھر سے اسے سونے نہ دوں گا‘‘۔
گاندھی جی کی یہ بات سو فیصد درست تھی؛کیوں کہ گوبظاہرتحریکِ خلافت کاانجام بخیر نہیں ہوا اور ’’ترکِ ناداں‘‘نے خود خلافت کی قباچاک کرڈالی،مگر ہندوستان کی سطح پر اس کا خوشگوار اثر یہ ہوا کہ ملک کے ہندواور مسلمان دونوں فرقوں نے مل کر آگے کی جدوجہدِ آزادی میں سرفروشانہ حصہ لیا اور برطانوی استعمار کو ملک بدر کرنے کی لیے مشترکہ قربانیاں پیش کیں۔بیسویں صدی کی مسلم دانش و فکر کے کئی بڑے اور اہم نام ایسے بھی تھے،جن کے دل دماغ میں بعض وجوہ کی بناپر اس تحریک کے تئیں تحفظات تھے اور انھوں نے کھل کراس کی حمایت سے کنارہ کشی اختیار کی،مگر جمہور علما،مسلم سیاسی قیادت اور دیگر قومی رہنماؤں و سیاسی لیڈران نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیااور پورے ملک میں ایک مخصوص قسم کا جذبۂ فداکاری بیدار ہوگیا۔اس سلسلے میں اُس عہد کی اردو صحافت کا رول بھی نمایاں ہے،’’ہمدرد‘‘و’’کامریڈ‘‘اور ’’زمیندار‘‘ وغیرہ جیسے مایہ ناز اخباروں نے مسلمانوں کی ذہنی تشکیل و سیاسی تربیت میں بھر پور حصہ لیا اور ان اخباروں کے شذرات سے مسلم قوم کو جدوجہد آزادی میں راست طورپر حصہ لینے کی تحریک حاصل ہوئی،ہمارے صحافیوں اور اربابِ قلم نے لوگوں کے دلوں میں اس حقیقت کو جاگزیں کیاکہ انگریز بہادراس ملک کی تمام تر دولت و وسائل کو غصب کرکے اور یہاں کی تہذیبی وراثت پر ہاتھ صاف کرکے ہندوستانیوں کو طویل عرصے تک فکری، ذہنی ،معاشی و معاشرتی طورپر اپاہج و ناکارہ بنائے رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اگر وقت رہتے ہم بیدار نہیں ہوئے،تو غلامی کی زنجیر روز بہ روز گراں بار ہوتی جائے گی اور ہماری سانسیں بھی آزادی کی نعمت سے محروم ہوجائیں گی؛چنانچہ ان اربابِ فکر و قلم کی صداے مسلسل نے ہندوستانی قوم کے جذبات کو جھنجھوڑا اور اسے خوابِ غفلت سے بیدار کیا،پھر دنیا نے دیکھاکہ کس طرح ہندوستان نے چند عشروں کے اندر ہی غلامی کی بیڑی کو نکال پھینکا اور ایک آزاد و خودمختار قوم کی حیثیت سے عالمی منظرنامے پر ابھری۔
تحریکِ خلافت اپنے تاریخی پس منظر،سیاسی کردار و نتائج اور قیادت کے تنوع کے اعتبار سے نہایت اہمیت کی حامل ہے ؛اس لیے ضرورت تھی کہ اس پر نئے سرے سے ریسرچ اور تحقیق کی بنیاد اٹھائی جائے،اللہ پاک جزاے خیر دے ہمارے نہایت محترم ڈاکٹر منورحسن کمال کوکہ انھوں نے اپنی تحقیق و مطالعے کے لیے تحریکِ آزادی و خلافت اور اس کے نمایاں رہنماؤں کا انتخاب کیا اور اب تک اس سلسلے میں ان کی کئی قابلِ قدر تصنیفی و تحقیقی پیش کش منظرِ عام پر آکر خاص و عام میں مقبول ہوچکی ہیں۔زیر نظرکتاب’’آزادیِ ہنداور تحریکِ خلافت‘‘اسی زریں سلسلے کی کڑی ہے،یہ کتاب آزادی کی تاریخ اور اس کے مختلف اہم کرداروں کو ایک نئے تناظر میں پیش کرتی ہے اور سیاسیات و تاریخِ آزادیِ ہند کے طالب علم کے سامنے مطالعہ و تحقیق کا ایک نیادرکھولتی ہے۔بنیادی طورپر اس کتاب میں آزادی ہند کی جدوجہد میں تحریکِ خلافت کے کردار کا تاریخی و تحقیقی جائزہ لیاگیا ہے،مگر فی الجملہ اس کی جامعیت پوری تاریخِ آزادی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔کتاب کے مقدمے میں تحریکِ خلافت کے تاریخی پس منظر اور ہندوستان سے اس کے تعلق کو واضح کیاگیا ہے،اس سلسلے میں مصنف نے بڑی دقت نظری کے ساتھ بعض ایسے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے،جن سے عموماًلوگ واقف نہیں ہیں،کتاب کے پہلے باب میں ’’خلافت او اردو صحافت‘‘، ’’1857کے بعد کا ہندوستان‘‘،’’خلافت کیاہے؟‘‘،’’خلافت سے قبل ہندوستان کی صورت حال‘‘،’’تحریکِ خلافت کا آغاز‘‘،’’تحریکِ خلافت پر اعتراضات‘‘،’’تحریک خلافت اور سندھ‘‘،’’خلافتِ عثمانیہ سے وفاداری‘‘،’’تحریکِ ہجرت‘‘،’’موپلوں کی بغاوت‘‘،’’چوراچوری‘‘،’’خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ‘‘،’’ہندوستان میں ردعمل‘‘جیسے ذیلی عناوین کے تحت تحریکِ خلافت سے قبل اور بعد کے ہندوستان کے سیاسی احوال و مسائل پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے،اس کے مطالعے سے کئی اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں اور اس وسیع الجہات تحریک کے نتائج و عواقب روشن ہوکر سامنے آتے ہیں۔کتاب کا دوسراباب’’تحریک خلافت،آزادیِ ہنداور مسلم علماودانش ور‘‘کے عنوان سے ہے،اس باب میں جن قائدینِ آزادی کے تذکرے ہیں،ان کے بارے میں عموماً بہت کچھ لکھا گیا ہے ،مگر اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ آزادیِ ہند کی تحریک میں ان کی خدمات اور قربانیوں کے تذکرے کے ساتھ تحریکِ خلافت سے ان کی وابستگی پرخاص روشنی ڈالی گئی ہے،جن علماو دانشوران اور قائدینِ آزادی کا اس باب میں ذکر ہواہے،ان میں شیخ الہند مولانا محمود حسن، امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی،علامہ شبلی نعمانی،مولانا محمد علی جوہر،مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا ظفر علی خاں،مولانا عبدالباری فرنگی محلی،مولانا سید سلیمان ندوی،مولانا عبدالماجددریابادی، مولانا حسرت موہانی،مولانا شوکت علی،مولانا حسین احمد مدنی،مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی،حکیم اجمل خاں،مہاتما گاندھی،مفتی کفایت اللہ،مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا مظہرالحق کے تذکرے شامل ہیں۔ ’’ہندو۔مسلم اتحاد:ایک مذاکرہ‘‘کے تحت اُس زمانے میں قومی ہم آہنگی کے قیام اور ترکِ موالات کے سلسلے میں کبارِ علماکی آراوفتاویٰ کے حوالے سے اس نکتے کی جانب اشارہ کیاگیا ہے کہ قوم پرست علماکے پیش نظر ہندوستانیوں کا اتحاد نہایت اہم تھا؛چنانچہ انھوں نے اس بات کی حتی الامکان کوشش کی کہ اس ملک میں بسنے والی دوبڑی قومیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر برطانوی استعمار کا مقابلہ کریں اور اس کے ظلم و جبر سے وطنِ عزیز کو آزادی دلانے کی جدوجہد کریں۔اخیر میں چند اُن مسلم خواتین کا بھی ذکرِ خیر کیاگیا ہے،جنھوں نے تحریکِ خلافت کو منظم و مضبوط بنانے اورآزادیِ وطن کی جدوجہدمیں اپنا بے مثال تعاون پیش کیا،اس کتاب میں تاریخی حقائق کی روشنی میں ایسی متعدد مخلص اور جاں سپار خواتین کا تذکرہ کیاگیا ہے،جن میں علی برادران کی والدۂ مرحومہ بی اماں، مولانا محمد علی جوہر کی اہلیہ امجدی بیگم،مولانا حسرت موہانی کی بیگم نشاط النسا،مولانا ابوالکلام آزاد کی اہلیہ محترمہ زلیخابیگم،ڈاکٹرسیف الدین کچلو کی اہلیہ سعادت بانوکچلو،مولانا مظہر الحق کی اہلیہ منیرہ بیگم،زبیدہ بیگم، کنیز سیدہ بیگم،عصمت آرابیگم اور صغریٰ خاتون شامل ہیں۔الغرض یہ کتاب تحریکِ خلافت کاایک جامع و مبسوط جائزہ پیش کرتی ہے اور تحریکِ آزادی کے اُن اہم سانحات و حقائق کو باوثوق حوالوں سے پیش کرتی ہے،جن کا تعلق کسی بھی طرح اس مشہورِ زمانہ تحریک سے رہاہے۔ڈاکٹر منور حسن کمال ایک کہنہ مشق ،دیدہ ور اور بصیرت مند صاحبِ قلم ہیں،تحقیق و ریسرچ کے جدید اصول اور تجزیہ و تحلیل کے سنجیدہ اسلوب پردست رس رکھتے ہیں،سو انھوں نے اپنی اس کتاب میں اس کا خوب صورت نمونہ پیش کیاہے۔یہ کتاب نہ صرف تحریک خلافت کے پس منظر و پیش منظر اور اس تحریک کے سرگرم کرداروں کے تعلق سے مستند معلومات پیش کرتی ہے؛بلکہ شستہ اسلوبِ نگارش ،وسعتِ مطالعہ اورشایستہ طرزِ تحریر و تحقیق کا قابلِ قدر نمونہ بھی ہے۔یہ کتاب تاریخِ آزادیِ ہند سے دلچسپی رکھنے والے ہر صاحبِ ذوق انسان کے مطالعے کی میز پرہونی چاہیے۔کتاب کاظاہری سراپا بھی دیدہ زیب اور خوش منظر ہے،طباعت قومی کونسل براے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون سے ایم آرپبلی کیشنز،دریاگنج،نئی دہلی کے ذریعے عمل میں آئی ہے، ۲۱۵؍صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت۱۰۵؍روپے ہے۔

You may also like

Leave a Comment